مغرور چین سے تجارت خطرے سے بھری



Published On 6th January 2012
انل نریندر
چین کے ذریعے شنزیانگ صوبے میں واقع شہر شیبو میں دو ہندوستانیوں کو رہا کرانے کی کوشش کررہے ہندوستانی سفارتکاروں سے بدسلوکی پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی۔ چین اپنی بد زبانی اور مغروربرتاؤ کے لئے خاص کر ہندوستان کے ساتھ مشہور ہے۔ بھارت سے اس کو اتنی جلن ہے کہ کبھی کبھی وہ اسے چھپا نہیں سکتا۔ دراصل وہ سمجھتا ہے کہ ایشیا میں اگر اس کو ہر خطے میں کوئی چنوتی دے سکتا ہے تو وہ بھارت ہی ہے۔ بھارت کو ہر محاذ پر وہ گھیرنے میں لگا رہتا ہے، میانمار، نیپال، پاکستان ہر ہندوستان کے پڑوسی پر اس نے اپنا شکنجہ کس لیا ہے۔ اکیلا بھارت ہی بچا ہے جہاں اس کی دھونس کا اثر نہیں ہوتا۔ اس لئے شیبو شہر میں جو کچھ ہوا اس پر کوئی خاص تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ہوا یہ کہ شیبو میں یورو گلوبل کمپنی کا مالک مقامی تاجروں کے بقایا پیسے چکائے بغیر ہی فرار ہوگیا۔ وہ چیچن یا پاکستانی شہری بتایا جارہا ہے۔مقامی کاروباریوں نے اس کمپنی کے دو ہندوستانی ملازمین دیپک رہیجا اور شیام سندر اگروال کو دو ہفتے سے یرغمال بنا رکھا تھا۔ ہندوستانی سفارتکار ایس بالا چندرن انہیں رہا کروانے کیلئے شیبو کی عدالت میں گئے تھے۔ عدالت کے احاطے میں جمع مقامی تاجروں(چینی) نے انہیں زبردستی روک لیا اور انہیں باہر جانے نہیں دیا ۔ انہوں نے بالا چندرن کے سفارتکار ہونے کی بھی پرواہ نہیں کی اور ان کی پٹائی کرڈائی جس سے وہ بیہوش ہوگئے اور ان کی حالت بگڑ گئی۔ انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ سفارتکار کی پٹائی پولیس اور جج کی موجودگی میں ہوئی۔ بھیڑ دراصل نہیں چاہتی تھی کہ بالاچندرن رہیجا اگروال کو لے جاسکیں۔ وہ ان سے خریدی چیزوں کے لئے بقایا لاکھوں روپے وہاں کی کرنسی یووان مانگ رہے تھے۔ عدالت نے دونوں کو رہا کردیا ہے لیکن سلامتی کے نقطہ نظر سے پولیس نے حراست میں رکھا۔ دونوں ممبئی کے باشندے ہیں۔ ان کے رشتے دار سفارتخانے سے رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔ شیبو میں 100 سے زیادہ ہندوستانی تاجر رہتے ہیں۔ پچھلے سال ہندوستانیوں نے 11 ارب ڈالر کی خریداری کی تھی۔ سلامتی کی وجوہات سے ہوٹل میں ان دونوں کو ٹھہرادیا گیا ہے۔ حالانکہ رہیجا اور اگروال کی نگرانی کے لئے دو سپاہی تعینات کئے گئے لیکن رہیجا نے فون پر کہا کہ وہ ابھی بھی فکر مند ہیں۔ ان کے ہوٹل کو مقامی بھیڑ نے گھیر رکھا ہے۔ 15 دسمبر سے یرغمال دونوں ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کمپنی میں نوکری کرتے تھے اس کمپنی پر مقامی تاجروں کے سامان کے بقایا جات کے لئے وہ ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جاسکتے۔ ان دونوں شہریوں اور ہمارے ایک سفارتکار کے ساتھ ہوئی بدسلوکی ایک بار پھر یہ بتا رہی ہے کہ چین کے ساتھ کاروباری رشتوں کی راہ بھی خطروں سے بھری ہے۔ حکام کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی کہ بالا چندرن شگر کی بیماری میں مبتلا تھے۔ انہیں گھنٹوں عدالت میں بٹھا کر رکھا گیا اور تب تک نہیں جانے دیا گیا جب تک ان کی طبیعت نہیں بگڑنے لگی۔ انہیں پانی اور دوا تک کی چھوٹ دینے سے بھی انکارکردیا۔ ہندوستانی میڈیا میں ہنگامہ مچنے کے بعد حکومت ہند نے صرف اتنا بھر کیا کہ دہلی میں چینی سفارتخانے کے افسر کو بلا کر اس سے اپنا احتجاج ظاہر کیا۔ ادھر بیجنگ میں واقع ہندوستانی سفارتخانے نے الٹا ایک وارننگ بھرا بیان جاری کرتے ہوئے اپنی ساری ذمہ داری سے پلا جھاڑتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی تاجر شیبو علاقے میں تجارت کرنے سے پرہیز رکھیں۔ چین کا ذکر آتے ہی ظلم کا شکار بن رہے تاجروں کے بارے میں ہماری حکومت کو دھیان رکھنا چاہئے تھا۔ ویانا سمجھوتے کے تحت سفارتکار سے کوئی بھی دیش بدسلوکی نہیں کرسکتا۔ قاعدے سے تو اس پورے معاملے کو بھارت سرکار کو بین الاقوامی اسٹیج پر اٹھا کر چین کو گھسیٹا جانا چاہئے تھا لیکن تجارتی رشتے بہتر بنانے سے زیادہ اثر دار ماننے والی ہماری حکومت کو یہاں کیوں جھجک پیدا ہوتی ہے یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ چین کا نام آتے ہی ہماری سرکار کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
Anil Narendra, China, Daily Pratap, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!