نہایت خطرناک چوراہے پر کھڑا پاکستان
2012 کا سال پاکستان کے لئیبہت اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ پاکستان ایک ساتھ کئی محاذ پر جدوجہد کررہا ہے۔ سیاسی مورچے پر صدر آصف علی زرداری بنام عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی کھلی جنگ چھڑ گئی ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ دوسرا محاذ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پاک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف شجاع احمد پاشا کے درمیان کھلا ہوا ہے۔ حالانکہ جنرل کیانی کا کہنا ہے پاکستان میں فوجی حکومت کا امکان نہیں ہے لیکن جس طریقے سے دونوں فریقین کے درمیان فاصلہ اور اعتماد بڑھا ہے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ادھر پاکستانی پارلیمانی کمیٹی نے میموگیٹ کی جانچ زور شور سے شروع کردی ہے۔ امریکی حکومت کو بھیجے گئے خفیہ خط (میموگیٹ) معاملے کی جانچ کررہی پاکستانی پارلیمانی کمیٹی نے اس وقت کے سفیرحسین حقانی ، پاکستانی نژاد کے امریکی تاجر منصور اعجاز اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کو سمن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ 10 جنوری کو کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں ان تینوں کو شخصی طور پر حاضر ہونا پڑ سکتا ہے۔ گذشتہ2 مئی کو امریکی کارروائی کے بعد اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد پاکستان کی سیاست میں مانو ایک زلزلہ سا آگیا ہے۔ اندرونی سیاست میں اس کارروائی کے بعد پاکستان میں فوجی تختہ پلٹ کے اندیشوں کو لیکر صدر آصف علی زرداری نے اوبامہ انتظامیہ کو مدد کے لئے خط لکھا تھا۔ اس انکشاف کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایسا زلزلہ آیا کہ وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ادھر پاک سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز میمو معاملے کی جانچ کے لئے پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کرانے کے حکومت کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے تین نفری کمیشن تشکیل کی ہے اور چار ہفتوں میں اسے اپنی جانچ پوری کرنے کو کہا ہے۔ تینوں ممبران اسلام آباد، بلوچستان اور سندھ ہائیکورٹ کے جج صاحبان ہیں۔ حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی اس حکم سے خوش نہیں اور حکومت سپریم کورٹ سے اپنے حکم پر نظرثانی کرنے کی درخواست کرے گی لیکن سب سے سنگین معاملہ ہے پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے رشتے۔نیویارک ٹائمس نے پیر کے روز اپنی شائع رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اب اس سچائی کا سامنا کررہا ہے کہ اس کی پاکستان کے ساتھ وسیع سکیورٹی سانجھے داری کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ ایسے میں امریکی حکام ایک بیحد محدود دور میں دہشت گرد مخالف اتحاد کو بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہیں یہ احساس بھی ہے کہ اس سے دہشت گردوں کے خلاف حملہ کرنے کی ان کی (امریکہ) صلاحیت پیچیدہ ہوجائے گی اور افغانستان میں سپلائی بھی متاثر ہوگی۔ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے تو ساری حدیں پار کردیں ہیں۔ امریکہ میں ایک اثر دار ایسے ہی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ سال2012ء میں امریکہ جن ممکنہ خطرات سے سب سے زیادہ لڑ رہا ہے ان میں پاکستان کے ساتھ سنگھرش بھی شامل ہے۔ امریکہ نے دی کونسل آف فارن ریلیشن سینٹر فار کری ایٹو ایکشن نے امریکی حکام اور ماہرین سے بات چیت کی بنیاد پر ان ممکنہ خطرات کی فہرست تیار کی ہے جن سے نئے سال میں امریکہ کو محاذ آرا ہونا پڑے گا۔ کسی حملے یا دہشت گرد مخالف آپریشن کے جاری رہتے پاکستان سے لڑائی اس فہرست میں کافی اوپر ہے۔ امریکہ کی یہ فہرست اس وقت عام ہوئی ہے ، جب پاکستان میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ اور نیٹو کو کھلی وارننگ دے دی ہے۔ فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کے بعد گیلانی نے امریکہ اور نیٹو ممالک کو آگاہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی سرداری پر کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیں گے کیونکہ ان کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ پاکستان نے موجودہ حالات میں ناٹو کی سپلائی روک دی ہے اور مستقبل میں اس پر کوئی بھی فیصلہ کیبنٹ لے لے گی۔کل ملاکر پاکستان ایک نہایت خطرناک دوراہے پر کھڑا ہوا ہے۔ ہم امیدکرتے ہیں کہ پاکستان کے سیاستداں ان سنگین چنوتیوں سے نمٹنے میں کامیاب رہیں گے اور سارے اندیشات غلط ثابت ہوں گے۔
America, Anil Narendra, Asif Ali Zardari, Daily Pratap, General Kayani, Haqqani Network, ISI, Osama Bin Ladin, Pakistan, USA, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں