نئے سال کی پارٹیوں میں بڑھتا شراب نوشی و ہلڑ بازی کاچلن


Published On 5th January 2012
انل نریندر
زمانہ بدل گیا ہے۔ آج کل نوجوانوں کا انداز بھی بدل گیا ہے۔ آج کل نوجوانوں کو انجوائے کرنے کے لئے ڈسکو میں جانا پڑتا ہے۔ شراب و دیگر طرح کے نشے کرنے پڑتے ہیں تب جاکر ان کی تقریبات مکمل ہوتی ہیں۔مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے دادا جی ہوا کرتے تھے تو جب سال کا آخر ہوتا تھااور نئے سال کا آغاز تو سارا خاندان 12 بجے سے پہلے ڈائننگ ٹیبل پر اکٹھا ہوجاتا تھا اور ٹھیک 12 بجے ایک دوسرے کے گلے مل کر ، بڑے بوڑھوں کے پاؤں چھو کر نئے سال کو مناتے تھے۔ 31 دسمبر کی رات کو سارا خاندان ایک جگہ اکٹھا ہوتا تھا۔ کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی لیکن آج تو نوجوان طبقہ گھر سے باہر چلا جاتا ہے۔ ڈسکو میں جاکر شراب پیتے ہیں ہلڑ بازی کرتے ہیں ۔ اس نئے سال میں بھی یہ سب کچھ ہوا۔ سنیچر کی دیر رات نئے سال کے جشن میں ڈوبے نوجوانوں نے حیوانیت کی ساری حدیں پار کردیں جب ہلڑ بازوں نے ایم جی روڈ پر قریب آدھا گھنٹے تک جم کر غنڈہ گردی مچائی اور پولیس پر بھی پتھراؤ کیا۔ پتھراؤ میں دو پولیس والے شدید طور سے زخمی ہوگئے۔ دیگر کئی پولیس والوں کو بھی چوٹیں آئیں۔31 دسمبر کی رات کو نئے سال کا جشن منانے ایم جی روڈ پر پہنچے نشے میں دھت لڑکوں نے سہارا مال کے سامنے سڑک پر ہی اپنی گاڑیاں کھڑی کردیں ۔ یہاں گاڑیوں کا میوزک سسٹم آن کر دیا اور ڈانس کیا ، جس سے سڑک پر جام لگ گیا۔نشے میں دھت لڑکوں نے جام میں پھنسی گاڑیوں پر چڑھ کر ناچنا شروع کردیا۔ حدیں تو تب پار ہوگئیں جب 25 ہڑدنگیوں کے ایک گروپ نے یہاں کی ایک لڑکی کو دبوچ لیا۔ سبھی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔ لڑکی چلاتی رہی اور لڑکے درندوں کی طرح اس کی عصمت سے کھیلتے رہے۔ معاملے کو دیکھ رہے تعینات پولیس کانسٹیبل بھی حرکت میں آگئے اور لاٹھیاں چلائیں تب جاکر اس لڑکی کو بچایا جاسکا۔
پورے معاملے کو کیمرے میں قید کررہے میڈیا ملازمین کو دیکھتے ہی ان سے کیمرے چھیننے کی کوشش بھی ہوئی۔ ایک دوسری واردات میں روہنی میں نئے سال پر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ پارٹی منانے پہنچی ایک طالبعلم کی جان پر بن گئی۔ اس کے بوائے فرینڈ کے دوستوں نے اکیلا پاکر طالبہ سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ گھبرائی طالبہ پہلی منزل سے کود پڑی۔ اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ پچھلے کچھ برسوں سے ان ریو پارٹیوں کا بہت تذکرہ ہے۔ اس پارٹی کا مطلب ہے ایسی پارٹی جہاں شراب اور نشہ کھلے عام طور پر چلتا ہے۔ نوجوان طبقہ ان کا کھلا استعمال کرتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک نائیجیریا سپلائر کو پکڑا گیا جس کے پاس سے 1 کروڑ50 لاکھ سے اوپر کی نشیلی اشیاء برآمد ہوئی جو نئے سال کی مختلف پارٹیوں میں سپلائی کی جانے والی تھی۔ شراب تو آج کل پانی کی طرح چلتی ہے۔ نئے سال کے استقبال میں دہلی والے قریب 75 کروڑ روپے کی شراب پی جاتے ہیں۔ میخانوں میں جم کر ہوئی مستی،جام بھی خوب چھلکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا فائدہ سرکار کو بھی ہوا۔ محکمہ آبکاری کے اعدادو شمار کے مطابق کمائی کے لحاظ سے بکری میں محض ایک ہفتے میں 15 کروڑ سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔ گذشتہ سال 2011 کے دسمبر کے آخری ہفتے میں 75.5 کروڑ روپے کی شراب بکی۔ سال 2011ء کے اسی مہینے میں بکری کا یہ آنکڑا60 کروڑ روپے کا ہے۔ آخری مہینے کے آخری 12 دنوں میں تقریباً400 کروڑ روپے کی شراب بکی۔ سرکار کو47 کروڑ روپے کا فائدہ ہوا۔ جیسا کہ میں نے کہا نوجوانوں کی سوچ بدل گئی ہے اور مغربی کلچر کا اثر ہمارے دیش میں بڑھتا جارہا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Happy New Year, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!