آل پارٹی میٹنگ میں سرکار زیادہ کامیاب رہی



Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 6th July 2011
انل نریندر
اگر منموہن سنگھ سرکار کی کل جماعتی میٹنگ بلا کر یہ ہی منشا تھی کہ انا ہزارے کی تحریک کی ہوا نکالنے کیلئے اپوزیشن پارٹیوں کا استعمال کیا جائے تو وہ اس میں پہلے کامیاب نہیں ہوسکیں تھیں۔ اب بیشک کچھ حد تک اس کو کامیابی ضرور ملی ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں نے سیول سوسائٹی کی مانگوں پر اپنے پتتے نہیں کھولے۔ اس بات پر اتفاق رائے ضرور بن گیا کہ ایک مضبوط لوکپال بل ضرور ہونا چاہئے۔ اس مقصد پر اتفاق رائے بننے کی کوئی امید نہیں تھی۔ بھاجپا کا ہمیشہ سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ پہلے سرکار پارلیمنٹ میں بل پیش کرے پھر اس پر ہم بحث کریں گے۔ اپوزیشن کی لیڈر و بھاجپا نیتا سشما سوراج کا کہنا تھا کہ کل جماعتی میٹنگ میں مسودے کی نکات پر بحث نہیں ہوئی۔ ہمیں ایسا لوکپال چاہئے جو شفافیت طریقے سے چنا جائے اور آزادانہ طور پر کام کرے۔ ہمارے سرکاری مسودے کے تقاضوں پر مختلف اختلاف ہیں۔ اس میں لوکپال کے انتخاب کا عمل دائرہ اختیار شامل ہے۔ تقریباً سبھی پارٹیوں کی رائے عام طور پر یہ ہی سامنے آئی تھی کہ سرکار کو سول سوسائٹی کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے۔ کچھ سیاستداں انا کی ٹیم پر بھی بھڑکے۔ آپ نے انا اور ان کی سول سوسائٹی کے بنائے ہوئے جن لوکپال بل کا مسودہ تو ہمیں دے دیا۔ ذرا انا کی بایو گرافی بھی دیجئے ، جس سے ہمیں ان کے بارے میں کچھ پتہ چل جائے۔ اپنے اختیارات پر اٹھتے سوال سے خار کھائی کچھ سیاسی پارٹیوں کا غصہ اس میٹنگ میں سماج وادی پارٹی کی جانب سے ایسے انداز میں بیان کیا گیا۔’’ پہلے تو آپ کو ہماری یاد نہیں آئی۔ اب جب پریشان ہوگئے تو ہمیں بلا لیا۔ اب آپ پارلیمنٹ میں پہلے طے عمل کے تحت بل لائیں۔ اس کے بعد ہی ہمیں جو کچھ کہنا ہوگا کہیں گے‘‘۔
اس کل جماعتی میٹنگ میں عام رائے ہونا تو دور کی بات رہی سبھی پارٹیاں اس بات کی زیادہ خواہشمند تھیں کہ کس پارٹی کا کیا موقف ہے۔ مرکزی سرکار اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ سبھی پارٹیوں نے ایک آواز میں یہ کہہ دیا کہ وہ اپنے اختیاروں سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے اور جنتا کے چنے ہوئے نمائندے کسی بھی سول سوسائٹی سے چھوٹے نہیں ہیں اور انہیں سول سوسائٹی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔ سرکار اپنے ارادے کو چھپا رہی تھی اور اس کی خواہش بھی معاملے کو سلجھانے کے بجائے لٹکانے میں زیادہ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دونوں مسودوں جو انا نے دیا تھا اور جو پانچ وزراء نے بنایا تھا، سب کوملا جلا کر اپنی طرف سے ایک ایسا مسودہ پیش کرتی جس میں دونوں کی بڑی شرطیں شامل ہوتیں تو شاید کوئی اتفاق رائے ہوجاتا۔ لیکن سرکار نے ایسا نہیں کیا۔ کل ملاکر اس کل جماعتی میٹنگ کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ ٹیم انا نے میٹنگ کے بعد کہا کہ کل جماعتی میٹنگ میں تو کوئی نتیجہ نکلنا ہی نہیں تھا۔ سرکار نے کیبنٹ سے پاس کوئی مسودہ بھی نہیں تیار کیاتھا۔ سول سوسائٹی کے ممبر منیش سسودیا کا کہنا تھا 16 اگست سے انا ہزارے کا انشن اس بات پر منحصر کرے گا کہ سرکار اتنا پائیدار بل مانسون کے اجلاس میں پیش کرتی ہے۔ ہماری نگاہیں کیبنٹ سے پاس کردہ مسودے پر لگی ہیں۔ کرن بیدی کا کہنا تھا کہ ایتوار کی میٹنگ میں کم سے کم سیاسی پارٹیوں نے لوکپال بل بنوانے کی ذمہ داری تو لے لی۔ ہمیں لگتا ہے کہ لوکپال بل صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کرن جی کے نظریات سے کتنے لوگ متفق ہوں گے؟
Tags: Anil Narendra, Anna Hazare, Civil Society, Corruption, Daily Pratap, kl, Lokpal Bill, Manmohan Singh, Samajwadi Party, Sushma Swaraj, Vir Arjun
 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟