ناجائز کالی کمائی کو واپس لانے کی سپریم کورٹ کی لائق تحسین کوشش
اگر حسن علی اور کاشی ناتھ تاپوریہ نے سوچا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے ساری کارروائی سے بچ جائیں گے تو انہوں نے غلط سوچا تھا۔ سپریم کورٹ ایسا نہیں ہونے دے گی۔ سپریم کورٹ نے بیرونی ممالک میں جمع کالی کمائی کے معاملے میں اس دولت کو واپس لانے اور اس کی نئے سرے سے جانچ کرنے کیلئے ایک اعلی سطحی اسپیشل ٹاسک فورس قائم کردی ہے۔ سوموار کو عدالت کے جسٹس ڈی سدرشن ریڈی اور ایس ایس ندھر کی ڈویژن بنچ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے حکومت ہند کو زبردست پھٹکار لگائی۔ انہوں نے حسن علی خاں کیس کو نشانہ بناتے ہوئے سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم سے سوال کیا کہ انفورسٹمنٹ ڈائریکٹرویٹ (ای ڈی) نے حسن علی معاملے میں صرف 44 کروڑ روپے کی دولت کو ضبط کرکے کیا پیغام دینا چاہا ہے؟ ڈویژن بنچ نے سوال کیا کہ وہ جیرومو کا کیا ہوا؟ انکم ٹیکس نے تو 40 ہزار کروڑ روپے کی انکم ڈیمانڈ نکالی تھی؟ حسن علی کے ساتھی کاشی ناتھ تاپوریہ کے خلاف 20580 کروڑ روپے کا ڈیمانڈ نوٹس دیا تھا۔ اب آپ عدالت کو بتا رہے ہیں کہ آپ نے 44 کروڑ روپے کی املاک کو ضبط کیا ہے باقی جیرومو کا کیا ہوا؟ مطلب صاف تھا کہ انکم ٹیکس محکمہ حسن علی خاں کو بچا رہا ہے، کیوں ؟ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ پہلی بار نہیں جب اس معاملے میں عدالت کو مایوسی ہوئی ہے، پہلے بھی اس معاملے میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی کارروائی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ 2007 ء میں ای ڈی نے سنسنی خیز خلاصہ خود کیا تھا کہ 2001-2005 کے درمیان حسن علی خاں کا لین دین 1.6 بلین ڈالرکا تھا۔ 2007 ء میں جب حسن علی کے پونے میں بنے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا تو وہاں سے 8.04 بلین ڈالر کے یوبی ایس بینک، سوئٹزر لینڈ کو لین دین کے دستاویز ملے تھے۔ عدالت نے پوچھا کہ حسن علی کے بوفورس دلال عدنان خشوگی سے سب کو کیا ملاہے؟ حسن علی نے خشوگی کا یو بی ایس بینک میں کھاتہ کھلوانے میں مدد کی تھی۔ سرکار کے پاس عدالت سے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بیرون ملک میں چھپائے گئے کالے دن کی جانچ میں سرکار کی لیپا پوتی اور گمراہ کرنے والی کارروائی سے ہی تنگ آکر سپریم کورٹ نے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک اسپیشل ٹاسک فورس کی تشکیل کا فیصلہ اسی مقصد سے لیاگیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً1456 ارب ڈالر یعنی 70 لاکھ کروڑ روپے بیرونی ممالک میں جمع ہیں۔ اس حساب سے دیش کی املاک کا 40 فیصد بلیک منی کی شکل میں بیرونی ملکوں میں جمع ہے۔ امریکہ کی قانونی دھمکیوں کے بعد سوئٹزر لینڈ کے یو بی ایس بینک نے نہ صرف کھاتہ ہولڈر امریکی شہریوں کے نام بتائے، 78 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ بھی دیا۔ جبکہ بھارت نے پچھلے 20 برسوں سے کالی کمائی کو واپس لانے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے پیر کو صاف کہا کہ مرکزی حکومت اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس نے یہ دو ٹوک تبصرہ بھی کیا کہ سرکار نے جو قدم اٹھائے ہیں ان پر اسے زبردست اعتراض ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی پایا کہ کالے دھن کی جانچ پوری طرح سے رکی ہوئی ہے۔ آخر بڑی عدالت کے ایسے سخت موقف کے بعد سرکار کس منہ سے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ کالے دھن کے مسئلے پر سنجیدہ ہے؟ دیش کی معیشت اور سکیورٹی سے وابستہ ایسے حساس معاملے میں سرکار کی بے رخی سے تنگ آکر عدالت کو خود ہی اس پر سیدھی کارروائی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ چھ مہینے سے عدالت مسلسل سرکار کو وارننگ دے رہی تھی کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور ان سبھی لوگوں کی نشاندہی کرے جنہوں نے اپنی ناجائز دولت بیرونی ملکوں میں چھپا رکھی ہے لیکن سرکار کورے وعدوں یا بچنے کی کارروائیوں سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں نظر آرہی تھی۔سرکاری لاچاری کا عالم یہ ہے کہ وہ بیرونی ملک میں چھپائی گئی کالی کمائی کو محض ٹیکس سے بچنے کا معاملہ بتا رہی ہے جبکہ خود دیش کی بڑی عدالت مانتی ہے کہ یہ پیسہ دیش کی ترقی کی مد سے چرایا گیا ہو سکتا ہے۔ یا ہتھیاروں اور نشیلے سامان کی اسمگلنگ کے ساتھ آتنک وادیوں کی مدد کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ بابا رام دیو سمیت دیش کے نامی گرامی شہریوں نے بار بار اس سنگین مسئلے کو اٹھایا ہے۔ بابا رام دیو کی تو یہ اہم مانگ ہی رہی ہے۔ اس پیسے کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے۔ ان سب کے باوجود سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ خفیہ امریکی دستاویزوں کو سامنے لاکر دنیا میں سنسنی مچانے والی وکی لکس کے اسانجے نے یہ معمہ کھولا تھا کہ بیرونی ممالک میں کالی کمائی جمع کروانے والے ممالک میں ہندوستان سب سے اوپر ہے۔ اور جہاں امریکہ ، جرمنی، یوروپی ممالک بیرونی ممالک میں جمع پیسے کی واپسی کے لئے جارحانہ طریقے سے کارروائی کررہے ہیں وہیں حکومت ہند نے حیرت انگیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہماری حکومت کی خاموشی حسن علی معاملے میں بھی دیکھی جاسکتی ہے، گھوڑے اور کباڑ کے کاروبار کی آڑ میں دیش کا سب سے بڑا حوالہ کاروباری اربوں کی دولت کو باقاعدہ طور سے بیرون ملک بھیجتا تھا۔ الزام یہ ہے کہ وہ دیش کے بااثر لوگوں کی دولت کا حساب کتاب بھی لگاتا تھا، جن میں سیاستداں افسر شاہ بھی شامل تھے۔تعجب کی بات یہ تھی کہ کارگزاریوں کی بھنک ہونے کے باوجود حسن وی آئی پی بن کر ملک میں کھلا گھومتا تھا۔ اگر سپریم کورٹ نے سخت رویہ نہ اپنایا ہوتا تو کیا حسن علی آج سلاخوں کے پیچھے ہوتا؟ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حسن علی جن کی کالی کمائی کا حساب کتاب رکھتا تھا وہ لوگ کون ہیں؟ اصل چور تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے کرسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دیش کو لوٹا اور لوٹ کا مال بیرونی ممالک میں چھپایا۔ سرکار ان کے نام بتانے میں غیر ملکی قوانین اور قواعد کی آڑ لے رہی ہے اس لئے بار بار سپریم کورٹ نے براہ راست حکم دیا ہے کہ ویسے تمام لوگوں کو جن میں ایسی کالی کمائی پر نوٹس دیا گیا ہے ان کے نام عدالت میں رکھے جائیں۔ عدالت نے تو یہاں تک تبصرہ کیا کہ اگر وہ سرکار کی جگہ ہوتی تو وہ ایسا معاہدہ کبھی نہ کرتی جس سے دیش کا مفاد متاثر ہوتا ہو۔ سپریم کورٹ نے جس طرح اسپیشل ٹاسک فورس کی تشکیل کی ہے اور اس میں بڑی عدالت کے دو سابق جج صاحبان کو جگہ دینے کے ساتھ یہ کہا ہے کہ یہ فورس پیسے سے وابستہ معاملوں سے نمٹنے کی ایک وسیع حکمت عملی تیار کرے۔ اس سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے اسے اس منموہن سرکار سے کوئی امید نہیں رہ گئی ہے۔ ایسی دیدہ دلیری کے لئے سپریم کورٹ کو ہمارا سلام۔ دلچسپ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سختی سے بچنے کے لئے سرکار نے پچھلے دنوں آناً فاناً میں 8 افسروں کی کمیٹی بنادی تھی جس کے چیئرمین مرکز کے محصول سکریٹری ہیں۔ اب سپریم کورٹ کی اسپیشل ٹاسک فورس کے ساتھ اس ٹیم کو جوڑدیا جائے گا تب جاکر شاید صحیح معنوں میں بیرونی ملک میں جمع کالی کمائی اور اس سے وابستہ لوگوں کی پہچان کے کام کی سمت میں اور تیزی آئے گی۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً1456 ارب ڈالر یعنی 70 لاکھ کروڑ روپے بیرونی ممالک میں جمع ہیں۔ اس حساب سے دیش کی املاک کا 40 فیصد بلیک منی کی شکل میں بیرونی ملکوں میں جمع ہے۔ امریکہ کی قانونی دھمکیوں کے بعد سوئٹزر لینڈ کے یو بی ایس بینک نے نہ صرف کھاتہ ہولڈر امریکی شہریوں کے نام بتائے، 78 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ بھی دیا۔ جبکہ بھارت نے پچھلے 20 برسوں سے کالی کمائی کو واپس لانے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے پیر کو صاف کہا کہ مرکزی حکومت اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اس نے یہ دو ٹوک تبصرہ بھی کیا کہ سرکار نے جو قدم اٹھائے ہیں ان پر اسے زبردست اعتراض ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی پایا کہ کالے دھن کی جانچ پوری طرح سے رکی ہوئی ہے۔ آخر بڑی عدالت کے ایسے سخت موقف کے بعد سرکار کس منہ سے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ کالے دھن کے مسئلے پر سنجیدہ ہے؟ دیش کی معیشت اور سکیورٹی سے وابستہ ایسے حساس معاملے میں سرکار کی بے رخی سے تنگ آکر عدالت کو خود ہی اس پر سیدھی کارروائی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ چھ مہینے سے عدالت مسلسل سرکار کو وارننگ دے رہی تھی کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور ان سبھی لوگوں کی نشاندہی کرے جنہوں نے اپنی ناجائز دولت بیرونی ملکوں میں چھپا رکھی ہے لیکن سرکار کورے وعدوں یا بچنے کی کارروائیوں سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں نظر آرہی تھی۔سرکاری لاچاری کا عالم یہ ہے کہ وہ بیرونی ملک میں چھپائی گئی کالی کمائی کو محض ٹیکس سے بچنے کا معاملہ بتا رہی ہے جبکہ خود دیش کی بڑی عدالت مانتی ہے کہ یہ پیسہ دیش کی ترقی کی مد سے چرایا گیا ہو سکتا ہے۔ یا ہتھیاروں اور نشیلے سامان کی اسمگلنگ کے ساتھ آتنک وادیوں کی مدد کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ بابا رام دیو سمیت دیش کے نامی گرامی شہریوں نے بار بار اس سنگین مسئلے کو اٹھایا ہے۔ بابا رام دیو کی تو یہ اہم مانگ ہی رہی ہے۔ اس پیسے کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے۔ ان سب کے باوجود سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ خفیہ امریکی دستاویزوں کو سامنے لاکر دنیا میں سنسنی مچانے والی وکی لکس کے اسانجے نے یہ معمہ کھولا تھا کہ بیرونی ممالک میں کالی کمائی جمع کروانے والے ممالک میں ہندوستان سب سے اوپر ہے۔ اور جہاں امریکہ ، جرمنی، یوروپی ممالک بیرونی ممالک میں جمع پیسے کی واپسی کے لئے جارحانہ طریقے سے کارروائی کررہے ہیں وہیں حکومت ہند نے حیرت انگیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہماری حکومت کی خاموشی حسن علی معاملے میں بھی دیکھی جاسکتی ہے، گھوڑے اور کباڑ کے کاروبار کی آڑ میں دیش کا سب سے بڑا حوالہ کاروباری اربوں کی دولت کو باقاعدہ طور سے بیرون ملک بھیجتا تھا۔ الزام یہ ہے کہ وہ دیش کے بااثر لوگوں کی دولت کا حساب کتاب بھی لگاتا تھا، جن میں سیاستداں افسر شاہ بھی شامل تھے۔تعجب کی بات یہ تھی کہ کارگزاریوں کی بھنک ہونے کے باوجود حسن وی آئی پی بن کر ملک میں کھلا گھومتا تھا۔ اگر سپریم کورٹ نے سخت رویہ نہ اپنایا ہوتا تو کیا حسن علی آج سلاخوں کے پیچھے ہوتا؟ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حسن علی جن کی کالی کمائی کا حساب کتاب رکھتا تھا وہ لوگ کون ہیں؟ اصل چور تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے کرسی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دیش کو لوٹا اور لوٹ کا مال بیرونی ممالک میں چھپایا۔ سرکار ان کے نام بتانے میں غیر ملکی قوانین اور قواعد کی آڑ لے رہی ہے اس لئے بار بار سپریم کورٹ نے براہ راست حکم دیا ہے کہ ویسے تمام لوگوں کو جن میں ایسی کالی کمائی پر نوٹس دیا گیا ہے ان کے نام عدالت میں رکھے جائیں۔ عدالت نے تو یہاں تک تبصرہ کیا کہ اگر وہ سرکار کی جگہ ہوتی تو وہ ایسا معاہدہ کبھی نہ کرتی جس سے دیش کا مفاد متاثر ہوتا ہو۔ سپریم کورٹ نے جس طرح اسپیشل ٹاسک فورس کی تشکیل کی ہے اور اس میں بڑی عدالت کے دو سابق جج صاحبان کو جگہ دینے کے ساتھ یہ کہا ہے کہ یہ فورس پیسے سے وابستہ معاملوں سے نمٹنے کی ایک وسیع حکمت عملی تیار کرے۔ اس سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے اسے اس منموہن سرکار سے کوئی امید نہیں رہ گئی ہے۔ ایسی دیدہ دلیری کے لئے سپریم کورٹ کو ہمارا سلام۔ دلچسپ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سختی سے بچنے کے لئے سرکار نے پچھلے دنوں آناً فاناً میں 8 افسروں کی کمیٹی بنادی تھی جس کے چیئرمین مرکز کے محصول سکریٹری ہیں۔ اب سپریم کورٹ کی اسپیشل ٹاسک فورس کے ساتھ اس ٹیم کو جوڑدیا جائے گا تب جاکر شاید صحیح معنوں میں بیرونی ملک میں جمع کالی کمائی اور اس سے وابستہ لوگوں کی پہچان کے کام کی سمت میں اور تیزی آئے گی۔
Tags: Anil Narendra, Black Money, Corruption, Daily Pratap, Hasan Ali Khan, Manmohan Singh, Supreme Court, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں