ڈی ایم کے کا تیسرا کرپٹ وکٹ ڈاؤن، مارن کا استعفیٰ
وپی اے کی کچھ اتحادی پارٹیوں نے منموہن سنگھ حکومت کا ساتھ و حمایت اس لئے دی تھی کہ وہ دیش کو لوٹ سکیں۔ ان کا واحدمقصد پیسہ کمانا تھا اور ہے۔ ان میں خاص ہے ڈی ایم کے حالانکہ این سی پی بھی اسی زمرے میں آتی ہے لیکن فی الحال ڈی ایم کے کا نمبر لگا ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ میں ڈی ایم کے کو آخر کار تیسرا وکٹ گنوانا پڑا۔ مرکزی وزیر کپڑا دیاندھی مارن کا معاملہ جیل میں بند اے راجہ اور ڈی ایم کے ایم پی کروناندھی کی بیٹی کنی موجھی سے بھی ایک قدم آگے ہے۔ دیا ندھی مارن نے یوپی اے حکومت میں مرکزی وزیر مواصلات رہتے ہوئے کمال ہی کرڈالا۔ سی بی آئی نے بدھوار کو سپریم کورٹ میں اسٹیٹس رپورٹ پیش کرتے ہوئے بیان دیا کہ مارن نے ایئر سیل کمپنی کی حصہ داری ملیشیائی کمپنی میکسس کو فروخت کروائی۔ پھر اسے لائسنس دے کر بدلے میں 675 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری اپنے سن ٹی وی میں کروا دی۔ سی بی آئی کے وکیل کے کے وینوگوپال نے جسٹس جی ایس سنگھوی اور اے کے گانگولی کی بنچ کو بتایا کہ 2006 ء میں ٹیلی کام وزیر رہتے ہوئے مارن نے چنئی کی کمپنی ایئر سیل کی لائسنس درخواست جان بوجھ کر التوا میں رکھی۔ اسے اپنی حصے دار ملیشیائی کمپنی میکسس کو بیچنے کے لئے مجبور کیا۔ میکسس ، ایئرسیل کو لائسنس دینے کے بدلے میں اپنی ڈی ٹی ایم کمپنی سن ٹی وی کے لئے بڑا سرمایہ حاصل کیا۔ مارن کا فارمولہ آسان تھا ۔ اس ہاتھ لو اس ہاتھ دو۔ میکسس کے وی آنند کرشنن مارن کے رشتہ دار ہیں اس لئے مارن نے ان کے ذریعے یہ فائدے کا سودا کیا۔ دیکھئے یہ کھیل مارن نے کیسے کھیلا۔ دباؤ بنانے کیلئے پہلے تو مارن نے ایئر سیل کے ٹو جی اسپیکٹرم لائسنس درخواست کو دو سال تک روکے رکھا۔ پھر 2006 ء میں ایئر سیل کو اپنی حصے دار میکسس کو بیچنے کے لئے مجبور کیا۔ بدلے میں میکسس نے اپنی ایک ساتھی کمپنی کے ذریعے مارن کی سن ٹی وی میں 675 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی۔ اس کے عوض میں ایئر سیل کی 74 فیصدی حصے داری کو لیکر میکسس کو 23 سرکل کے لائسنس دے دئے۔ کنی موجھی تو کل 200 کروڑ روپے کے گھوٹالے میں شامل تھیں، دیا ندھی مارن نے تو 675 کروڑ روپے کا براہ راست گھپلہ کیا ہے۔
یہ دوسرا موقعہ ہے جب مارن کو وزارت چھوڑنی پڑی ہے۔ اس سے پہلے انہیں 2007ء میں عہدہ اس وقت چھوڑنا پڑا تھا جب کروناندھی خاندان میں اندرونی اختلافات کا شکار ہوئے تھے۔ چنئی سینٹرل سے لوک سبھا کے ممبر مارن عام چناؤ کے بعد مئی 2009ء میں پھر سے کیبنٹ میں شامل ہوئے لیکن اس بار انہیں ٹیلی وزارت نہیں ملی جیسا کے وہ چاہتے تھے۔ بلکہ انہیں کپڑا وزارت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ کانگریس نے بدھوار کو جہاں دیاندھی مارن کے استعفے پر تبصرہ کرنے سے منع کردیا وہیں یہ بھی کہا کہ ڈی ایم کے پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد جاری رہے گا۔ کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ بنیادی حقیقت کی ترجیحات پر سیاسی اتحاد قائم ہوتا ہے۔ ہمارا اتحاد ڈی ایم کے کے ساتھ سال2004 سے جاری ہے اور اس صورت میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
کیا اسے محض اتفاق ہی مانا جائے گا کہ منموہن سرکار سے ان تمام کرپٹ وزیروں کا صفایا سپریم کورٹ کے کہنے پر ہورہا ہے یا یہ سب کسی طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے؟ ڈی ایم کے کے بعد اب اگلا نمبر این سی پی کے بدعنوان وزیروں کا ہونا چاہئے۔
Tags: 2G, Anil Narendra, CBI, Daily Pratap, Dayanidhi Maran, DMK, Manmohan Singh, NCP, Supreme Court, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں