آپریشن سے لڑکیوں کے جنس کی تبدیلی


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 6th July 2011
انل نریندر
مدھیہ پردیش کے اندور ضلع سے ایک چونکانے والی خبر آئی ہے۔ یہاں سرجری کرکے بچیوں کو لڑکا بنا دیا گیا ہے۔ میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق اندور میں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں 6 سال تک کی بچیوں کوجینوے پلاسٹی سٹی نامی سرجری سے لڑکوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ این سی پی سی آر نے اندور میں کی جارہی اس حرکت کو سرا سر اطفال حقوق کی خلاف ورزی مانا ہے۔انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ اس سے سماج میں جنسی امتیاز کے جذبے کو فروغ ملے گا۔کمیشن نے مدھیہ پردیش سے نہ صرف ان سارے معاملوں کی رپورٹ مانگی ہے بلکہ ان کاموں میں شامل ڈاکٹروں کی فہرست کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف اٹھائے گئے قدموں کی بھی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ اندور کے چیف میڈیکل اینڈ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شاردا پنڈت کے حوالے سے بچوں پر جنسی تبدیلی کے لئے کسی بھی طرح کی سرجری کئے جانے کی بات سے حالانکہ انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا شہر میں ایسے دس ہسپتال ہیں جہاں پر بچے کے غیرفروغ جنسی اعضاء کے علاج کیلئے پلاسٹک سرجری کی جاسکتی ہے۔ یہاں ایسا کوئی سرکاری ہسپتال نہیں، جہاں میڈیکل کونسل آف انڈیا کے قواعد کے تحت ایسی کوئی سرجری (آپریشن) کی جا سکے۔ ویسے بھی ایک صحتمند اور ہرلحاظ سے ٹھیک ٹھاک بچے یا بچی کاسیکس تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے۔
بیٹیوں کے خلاف سماجی امتیازیا اس سے بدسلوکی کرنا اور میڈیکل سائنس کا اس طرح کا استعمال کیسے ہوسکتا ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے اندور کے کچھ پلاسٹک سرجن ہر سال ایسے سینکڑوں آپریشن کرتے ہیں جن میں سے پانچ سال کی بچیوں کے پوشیدہ حصوں کو مردوں کے پوشیدہ حصوں میں بدلا جاتا ہے۔ ظاہری طور پر اس میں کوئی اخلاقی یا قانونی دقت درپیش نہیں ہے۔ اخلاقی اس لئے کیونکہ جن بچیوں کا آپریشن کیا جاتا ہے وہ مبینہ طور سے انٹر سیکس ہوتی ہیں یعنی ان کے اندرونی پوشیدہ مقام پر مردوں جیسے اعضاء کے آثار ہوتے ہیں اور وہ عورتوں کے جسم سے باہر دکھائی یا ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا دعوی یہ ہے کہ وہ تو بچے کو اس کی اصلی پہچان دے رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اپنے پوشیدہ (لنگ) کے بارے میں غلط فہمی یا الجھن میں نہ مبتلا رہیں۔ اس میں قانون دقت اس لئے نہیں ہے کیونکہ بھارت میں اس کے بارے میں کوئی قانون پہلے سے نہیں ہے۔
ہماری رائے میں اس طرح کا آپریشن بلا خوف خطر واقعی ہو رہے ہیں تو یہ نہ تو سماجی نقطہ نظر سے اور نہ اخلاقی نقطہ نظر سے اور نہ ہی آئینی نقطہ نظر سے جائز ہیں۔پھر یہ قدرت کو ایک طرح سے چیلنج کرنے والا عمل ہے۔ لیکن اگر یہ ہورہے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ والدین کی منظوری کے بعد ہی ڈاکٹر ایسا کررہے ہوں گے اس لئے ان کا بھی قصور کم نہیں ہے۔ ہمارے سماج میں بچیوں کو پیدا ہوتے ہی کئی جگہوں پر مار دیا جاتا ہے اور قصور سماج کا بھی ۔ پھر اب تک تو صرف بچہ پیدا ہونے سے پہلے جنس کا پتا لگانے اور اسقاط حمل کا مسئلہ سامنے آتا تھا۔ اب یہ میڈیکل سائنس کا اتنا بیجا استعمال ہے۔ ان آپریشنوں کے لئے اپنی بیٹیوں کو لے جانے والے ماں باپ بیٹا پانے کے لالچ میں اپنی اولاد کی زندگی تباہ کررہے ہیں اور پیسہ کمانے کے لئے ڈاکٹروں نے بھی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ایسے آپریشن کرنے پر بلا تاخیر قانونی پابندی لگے اور سماج میں ایسے ماں باپ ، ڈاکٹر، اسپتالوں کے خلاف ماحول بنایا جائے اور بچیوں کو بچایا جائے۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Sex Change, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟