گلے کی ہڈی بنتا تلنگانہ اشو


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 8th July 2011
انل نریندر
چاروں طرف مسائل سے گھری یوپی اے حکومت اب ایک اور مسئلے میں پھنس گئی ہے۔ کانگریس لیڈر شپ اور سرکار کے لئے نیا مسئلہ علیحدہ تلنگانہ ریاست مانگ کا ہے۔ آندھرا پردیش کے علیحدہ تلنگانہ پردیش کو لیکر حالات انتہائی سنگین رخ اختیار کر گئے ہیں۔ پیر تک کانگریس کے 10 ممبران پارلیمنٹ اور47 ممبران اسمبلی نے اپنے اپنے استعفے بھیج دئے تھے۔ تلنگانہ ریاست بنوانے کیلئے سبھی پارٹیوں نے سیاسی مہم تیز کردی ہے۔ اپوزیشن پارٹی ٹی ڈی پی کے بھی37 ممبران اسمبلی نے اسمبلی اسپیکر کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا ہے۔ بھاجپا اور کانگریس کے ممبران نے بھی اپنے استعفے سونپ دئے ہیں۔ استعفیٰ دینے والوں میں 9 کانگریس کے ممبران پارلیمنٹ بھی ہیں۔ کانگریس پارٹی کے لئے علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل گلے کی ہڈی بن گئی ہے جو نہ تو اگلتے بنتی ہے اور نہ ہی نگلتے۔ یہ بات کانگریس کے ریاستی انچارج غلام نبی آزاد نے بھی تسلیم کی ہے۔ حالانکہ تلنگانہ کا مطالبہ نیا نہیں ہے۔ تلنگانہ ریاست کی مانگ 50 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ مگر ہر حکومت اسے ٹالتی رہی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی سرکار میں اقتدار میں شامل تیلگو دیشم کا دباؤ تھا تو اپنے چناوی منشور میں تلنگانہ کی مانگ کی حمایت کرنے والی یوپی اے سرکار خودساختہ اتفاق رائے نہ بناپانے کے سبب اس مانگ کو پورا کرنے میں ناکام رہی اور تلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کے نیتا چندر شیکھر راؤ کو کیبنٹ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اپنی مانگ کو لیکر کی گئی ان کی بھوک ہڑتال کے پس منظر میں دسمبر2009 ء میں وزیر ادخلہ پی چدمبرم نے تلنگانہ ریاست بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے بعد جسٹس بی ایس کرشنا کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ جس کی ثالثی کے بعد کوئی ایک رائے نہ دیکر کئی متبادل سامنے رکھے گئے۔ اس درمیان مرکزی حکومت تلنگانہ کی مانگ کو لیکر ایک بار پھر الجھ گئی ہے۔ اب جب مانگ پھر سے اٹھائی گئی ہے اور استعفوں کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا ہے تو کانگریس اور اس کی لیڈر شپ والی یوپی اے سرکار ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہوئی ہے۔
سرکار قدم پھونک پھونک کر رکھ رہی ہے۔ دراصل منموہن سنگھ سرکار نہیں سمجھ پا رہی ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے؟ اگر وہ علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل کرتی ہے تو پھر کم سے کم 6 آزاد ریاستوں کی مانگ تیزی سے اٹھے گی اور اگر نہیں کرتی تو پھر آندھرا پردیش کے ساتھ ساتھ دہلی میں مرکزی سرکار پر بھی سنکٹ آسکتا ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری غلام نبی آزاد نے مانا ہے کہ صورتحال پیچیدہ ہے لیکن انہیں امید ہے کہ وہ اپنے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو منا لیں گے۔ وہ ان کے جذبات کو سمجھ رہے ہیں اور انہیں تھوڑا انتظار کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ منموہن سرکار ہوسکتا ہے کہ انا ہزارے مسئلے کی طرح اس مسئلے پر بھی کل جماعتی میٹنگ بلائے جس سے تلنگانہ کے مسئلے پر دوسری پارٹیوں کی رائے جانی جاسکتی ہے۔ کانگریس اور سرکار کو ڈر اس بات کا ستا رہا ہے کہ اگر تلنگانہ کی مانگ قبول کرلی جاتی ہے تو بندیلکھنڈ ، ہرت پردیش، روہیل کھنڈ، پوروانچل ودربھ اور رائل سیما اور کونکن جیسے علاقوں میں حالات بگڑنے کے امکان بڑھ جائیں گے جوکہ کانگریس فی الحال نہیں چاہتی۔ دوسری جانب اگر وہ اس مانگ کو مسترد کرتی ہے تو بہت بڑا خطرہ اٹھانا ہوگا۔ آندھرا پردیش میں جگن پہلے ہی وزیراعلی کرن ریڈی کی ناک میں دم کئے ہوئے ہیں۔ مرکز کی جانب سے مانگ نامنظور کرنے سے نہ صرف کرن ریڈی سرکار گر سکتی ہے بلکہ آنے والے وقت میں اس کے قریب ایک درجن سے زائد ممبران پارلیمنٹ بھی کم ہوجائیں گے۔ آنے والے وقت میں اس سب سے مضبوط گڑھ میں کانگریس بیحد کمزور ہوگی۔ کانگریس کو معاملے کو لٹکانے میں ہی فائدہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کیا علیحدہ تلنگانہ ریاست کی مانگ کرنے والے ایسا ہونے دیں گے؟
Tags: Andhra Pradesh, Anil Narendra, Daily Pratap, Hyderabad, TDP, Telangana, TRS, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!