کیا راہل کی پدیاتراسے کانگریس کو یوپی میں فائدہ ہوگا؟


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 9th July 2011
انل نریندر
 ماننا پڑے گا کے راہل گاندھی اپنے یوپی مشن 2012ء پر پوری طرح اتر چکے ہیں۔ وہ دن رات ایک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بھٹہ پارسول سے راہل گاندھی کی کسان سندیش یاترا رنگ لانے لگی ہے۔ وہ گاؤں گاؤں پیدل یاترا کررہے ہیں۔ یوپی میں بگڑتے امن و قانون نظم اور ترقی کے مسئلے کے مقابلے مایا سرکار کی زمین تحویل پالیسی پر زبردست چوٹ کرکانگریس نے یوپی میں ایک طرح سے ہلہّ بول دیا ہے۔ راہل گاندھی نے دہلی سے ملحق گریٹر نوئیڈا کے بھٹہ پارسول گاؤں سے اپنی کسان سندیش یاترا شروع کی ہے جو علی گڑھ جا پہنچی ہے۔ راہل کے مطابق اس پد یاترا کا مقصد بھٹہ سے آگرہ اور علیگڑھ تک ہورہے زمین ایکوائر اور اس سے پیدا ہورہی پریشانیوں کو سمجھنا اور متاثرہ لوگوں کے نظریات جاننا ہے۔ بھٹہ پارسول وہی گاؤں ہے جہاں کچھ دن پہلے اپنی زمین کو تحویل میں لئے جانے کی مخالفت کررہے کسانوں کی مشتعل بھیڑ پر پولیس نے گولیاں چلائی تھیں جس میں چار لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ اسی واقعہ کے بعد راہل گاندھی بھی وہاں جاکر دھرنے پر بیٹھے تھے اور انہوں نے گرفتاری بھی دی تھی۔ بھارت میں بہت دنوں کے بعد کسی لیڈر نے پد یاترا کی ہے۔ آج کل تو نیتا لوگ ہیلی کاپٹروں یا کاروں کے قافلے کے ساتھ محض رسم ادائیگی زیادہ کرتے ہیں۔ ایسے میں راہل کا پد یاترا کرتے ہوئے گاؤں میں جانا اور کسانوں کے ساتھ دال روٹی کھانا را ت میں پلنگ پر ہی سونا ، ان کے مسائل کو سننا ، نہ صرف اترپردیش کے لئے ہیں ایک سیاسی واقعہ ہے بلکہ پورے دیش میں اس کا ایک سندیش جارہا ہے۔ یوں تو پدیاترا کی روایت نئی نہیں ہے۔ سب سے پہلے اس کی بنیاد مہاتما گاندھی نے رکھی تھی، ان کے بعد ونوبابھاوے ، بابا آمٹے، سابق وزیر اعظم چندر شیکھر اور اداکار سے نیتا بنے سنیل دت کی طویل پد یاترائیں بھی کافی سرخیوں میں رہی ہیں۔ اب دہائیوں کے بعد راہل گاندھی کی شکل میں کوئی سیاستداں کسانوں کے سوالوں کو لیکر پد یاترا پر نکلے ہیں۔ کانگریس کے شہزادے راہل دھول ، دھوپ، بارش اور مٹی اور گرمی کے درمیان گاؤں کی گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں تو دوسری طرف کانگریسی انہیں مل رہے ہیں۔کانگریس عوامی حمایت کے بلبوتے پر اقتدار کی واپسی کا سپنا دیکھنے لگی ہے۔ یہاں تک کہ 9 جولائی یعنی آج علیگڑھ کے نمائش میدان میں کسان مہا پنچایت کے لئے تیاریاں پوری ہوچکی ہیں۔ یووراج کے کرشمے کو دیکھنے کیلئے وہاں لوگ دور دور سے پہنچ رہے ہیں۔ کانگریسیوں کو لگنے لگا ہے کہ اگلے سال ہونے والے یوپی اسمبلی چناؤ میں پارٹی حکمراں بہوجن سماج پارٹی کو سیدھے ٹکر دینے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جنتا سے یہ براہ راست رابطہ رنگ لائے گا اور 21 سال بعد اترپردیش کے اقتدار میں واپسی ممکن ہو سکے گی۔ یہاں تک کہ علیگڑھ میں راہل کی گرفتاری کے امکان سے بھی کانگریسی کافی خوش ہیں۔ پارٹی کے لیڈروں کا خیال ہے کہ اگر مایاوتی راہل کو گرفتار کرتی ہیں یا کوشش کرتی ہیں تو ان کے عہد کیلئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ حالانکہ انتظامیہ کی طرف سے آرہی خبروں کے مطابق دفعہ144 نافذ ہونے کے باوجود راہل کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
کسانوں کو انصاف دلانے کے مقصد سے راہل کی پد یاترا سے وزیر اعلی مایاوتی بے چین ضرور ہوں گی۔ ادھر عدالتی فیصلوں نے بہن جی کی سرکار کی ناک میں دم کررکھا ہے۔ ادھر راہل کو مل رہی عوامی حمایت بہن جی کے لئے تشویش کا موضوع ضرور بن گئی ہیں۔ بیشک بہن جی اور ان کے حکمت عملی ساز یہ دلیل دیں کہ مغربی اترپردیش ہمیشہ سے اجیت سنگھ کا گڑھ رہا ہے، جاٹ بیلٹ ہے جو بسپا کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر راہل گاندھی کی پد یاترا سے جاٹ ووٹ کانگریس کو جاتا ہے تو بسپا کو کوئی نقصان نہیں ہونے والا۔ یہ ووٹ تو ان کے خلاف پڑنا ہی تھا۔ لیکن بہن جی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ راہل کی پدیاترا کا اثر محض گریٹر نوئیڈا سے لیکر علیگڑھ بیہٹ تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ اس کا اثر پورے اترپردیش پر پڑے گا۔ اگر میں یہ کہوں کہ پوری ریاست میں کسان بیلٹوں پر اثر پڑے گا تو شاید غلط نہ ہو۔ کسان بھولے بھالے ، سیدھے سادے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک بار ان کے ساتھ حقہ پانی لے لو اور بڑے بزرگ سر پر ہاتھ رکھ کر آشیرواد دے دیں تو وہ اتنی آسانی سے نہیں پلٹتے۔ راہل کی محنت ضرور رنگ لائے گی۔ راہل نے آج کے دوسرے سیاستدانوں کو بھی ایک طرح سے بے نقاب کردیا ہے۔جو جنتا کے مفادات کی کسانوں کے مفاد کی باتیں تو لمبی چوڑی کرتے ہیں لیکن کچھ نہیں کرتے۔ راہل نے یہ سب کر کے دکھا دیا ہے۔
 Tags: Aligarh, Anil Narendra, Bhatta Parsaul, Congress, Daily Pratap, Greater Noida, Mayawati, Rahul Gandhi, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟