داؤد اور چھوٹا راجن کی دشمنی کا ہوئے شکار جے ڈے


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 5th July 2011
انل نریندر
مڈ ڈے کے سینئر صحافی جے ڈے کے قتل کے معاملے میں چھوٹا راجن کا نام آرہا ہے۔ سینئر صحافی جوترمے ڈے کے قتل کے معاملے میں ایتوار کو مافیہ سرغنہ چھوٹا راجن کے مبینہ ساتھی اور دلال کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ جے ڈے کے قتل میں اس شخص کا کردار تھا۔ چھوٹا راجن کے مبینہ ساتھی اور دلال ونود اسرانی عرف ونود چینگور سمیت 216 لوگوں کو اب تک اس قتل کے معاملے میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے جے ڈے کے قتل کے پیچھے چھوٹا راجن کا ہاتھ ہے۔ راجن کو اندیشہ تھا کہ جے ڈ ے اس کے ٹھکانے کے بارے میں انکشاف کرسکتے ہیں، اس لئے اس نے اس صحافی کا ہی صفایا کرنے کا ارادہ بنا لیا۔ ممبئی پر انڈر ورلڈ راج چلتا ہے۔ بیرونی ممالک میں محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے یہاں زندگی اور موت کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ چھوٹا راجن کون ہے؟ چلئے اس کے بارے میں آپ کو بتائیں۔ راجن سداشیو نکھلجے عرف چھوٹا راجن کی پیدائش ممبئی کی درمیانی کلاس بستی تلک نگر میں ہوئی تھی۔ 80 کی دہائی میں وہ سنیما گھروں کے باہر ٹکٹ بلیک کرتا تھا۔ جلد ہی اس کی پہچان راجن نائر عرف بڑا راجن سے ہوگئی۔ لڑکے کا حوصلہ راجن کو پسند آگیا ہے اور اس نے نکھلجے کو اپنا داہنا ہاتھ بنا لیا۔ جب بڑا راجن کا قتل ہوا تو نکھلجے نے اس کی جگہ لے لی اور تب سے وہ چھوٹا راجن بن گیا۔
چھوٹا راجن داؤد ابراہیم کاسکر گروہ میں شامل ہوگیا اور داؤد کا قریبی بن گیا۔ داؤد تب ممبئی کا سب سے بڑا ڈان تھا۔1986ء میں داؤد کے دوبئی چلے جانے کے بعد راجن اور چھوٹا شکیل اس کے ہندوستانی کاروبار میں نمائندے بن گئے۔ 1992ء میں ایودھیا میں بابری مسجد گرادی گئی ۔1993ء کی شروعات میں ممبئی میں سلسلہ وار دھماکے ہوئے اس میں داؤد کا ہاتھ تھا۔ اس واقعے نے چھوٹا راجن کو بغاوت کے لئے مجبور کردیا ۔ ظاہر ہے ڈی کمپنی میں فرقہ وارانہ پھوٹ پڑ چکی تھی۔ داؤد اور راجن تب سے پکے دشمن بنے ہوئے ہیں اور بھارت میں کاروبار کے لئے لڑ رہے ہیں۔ چھوٹا راجن کا دعوی ہے کہ وہ ہندوستان سے پیار کرتا ہے اس لئے داؤد کی بے پناہ طاقت کو چیلنج کرتا ہے۔ اپنے ہندوستانی پریم کی مثال دینے کیلئے اس نے 1996 ء میں نوپالی ممبر پارلیمنٹ مرزا دلشاد بیگ کو مروادیا تھا۔بتایا جاتا ہے مرزا، داؤد اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا آدمی تھا۔ اس کے ذریعے نیپال سے بھارت میں منشیات اور آتنک واد ایکسپورٹ کئے جاتے تھے۔
حالانکہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا لیکن عام رائے ہے کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں چھوٹے راجن کے رابطے میں رہتے ہیں۔ اسے داؤد کے خلاف جنگ میں استعمال کرتی ہیں اس لئے راجن کے چھوٹے موٹے جرموں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر بڑی کارروائی سے پہلے ہندوستانی خفیہ ایجنسیاں اور پولیس راجن کو مطلع کردیتی ہے تاکہ ان کے لوگوں پر قہر نہ ٹوٹے۔ چھوٹا راجن مشرقی ایریا میں کہیں روپوش ہے۔ شاید ملیشیا یا پھر انڈونیشیا میں اس کی طبیعت ابھی تک ٹھیک نہیں رہتی۔ اس کا سکہ بھی آج بدستور جاری ہے۔ اس سال مئی میں بائیکرس نے داؤد کے بھائی اقبال کاسکر کے ڈرائیور کو مارڈالا۔ تب لگا کے کچھ برسوں کی خاموشی کے بعد دوبئی میں ایک بار پھر سے گروہی جنگ چھڑنے والی ہے۔ اس کے بعد اگلے دو مہینے میں جے ڈے کا قتل ہوگیا جس کے پیچھے راجن اور داؤد کی آپسی دشمنی ہو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
Tags: Anil Narendra, Babri Masjid, Chhota Rajan, Daily Pratap, Dawood Ibrahim, ISI, J Dey, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟