ہنسراج بھاردواج کو اپنے عہدے پر بنے رہنے کا کوئی حق نہیں
Daily Pratap, Indias Oldest Urdu Daily |
21مئی 2011 کو شائع
انل نریندر
کرناٹک کے گورنر شری ہنسراج بھاردواج ویسے تو ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں اور وہ کئی اہم ترین عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ کرناٹک کے گورنر بننے سے پہلے وہ مرکزی حکومت میں وزیر قانون تھے۔ اندرا جی کے وقت میں وہ ذمہ دار عہدے پر بھی رہے ہیں۔ کرناٹک میں جانے کے بعد سے پتہ نہیں انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ اتنے غیر ذمہ دارانہ طریقے سے برتاؤ کررہے ہیں جو انہیں زیب نہیں دیتا۔ پتہ نہیں وہ کس ذاتی ایجنڈے پر چلنا چاہتے ہیں۔ ایک منتخب حکومت جس کی اسمبلی میں واضح اکثریت ہے ،اسے ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں۔ انہیں ڈسمس کرنے کی احمقانہ سفارش کرتے ہیں۔ آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ کس طرح اپنے قول و فعل میں فرق کے تئیں لاپروا ہ ہوگئے ہیں۔اس کی پختہ مثال کرناٹک کے گورنر ہنسراج بھاردواج کا یہ قول وزیر اعلی ایس یدورپا چنے ہوئے نمائندے ہیں۔ انہیں زبردست اکثریت حاصل ہے۔ اس پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم دوستے ہیں اس طرح کے سیاسی تناؤ اتفاقی ہیں۔ ہمیں آئین اور قانون کے تئیں وقف ہونا چاہئے۔
ہمیں پتہ نہیں شری ہنسراج بھاردواج کو کیا ہوگیا ہے۔ ایک دن مرکزی سرکار کو یدورپا سرکار کو برخاست کرنے کی سفارش کرتے ہیں تو اس سے اگلے دن یدی رپا کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ان سب تنازعات و حماقتوں کے باوجود کرسی سے چپکے رہنا چاہتے ہیں۔ خود کو واپس بلائے جانے کے بھاجپا کے مطالبہ پر انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کے طور پر ان کی تقرری صدر نے کی تھی اور ان کے علاوہ انہیں (بھاردواج) کو واپس نہیں بلایا جاسکتا۔ گورنر محترم اگر آپ سے ہم یہ ہی سوال کریں کہ کرناٹک کی عوام نے یدی رپا ہو نہ صرف چنا ہے بلکہ واضح اکثریت بھی دی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں انہیں برخاست کرنے والے؟دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمیں پتہ نہیں لگتا کہ ہنسراج بھاردواج کانگریس کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ مرکز ی سرکار و کانگریس پارٹی بیشک یدی رپا سرکار کی موجودگی سے خوش نہ ہو لیکن وہ اس حد تک نہیں جاسکتی کہ ایک واضح اکثریت والی منتخب سرکار کو بلا وجہ ہٹایا جائے۔ تبھی تو وزیر اعظم نے صاف طور پر کہا کہ کوئی غیر آئینی کام نہیں ہوگا۔ جب مرکز کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے تو گورنر موصوف کس کے ایجنڈے پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں؟
شری ہنسراج بھاردواج نے اپنی جانبدارانہ سفارش سے نہ صرف مرکزی حکومت کو پریشان کیا ہے بلکہ گورنر کے عہدے کے وقار کو بھی داغدار کیا ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ایک طرف وہ یدی رپا کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ان کے پاس بھاری اکثریت ہے تو دوسری جانب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے ریاستی کیبنٹ کی درخواست کو منظور کرنے سے پہلے اپنی سفارش پر مرکزی حکومت کے فیصلے کا انتظار بھی کررہے ہیں۔ کیا انہیں ابھی بھی یقین ہے کہ مرکزی حکومت ان کی سفارش مانتے ہوئے کرناٹک میں صدر راج تھونپ سکتی ہے؟ دراصل شری ہنسراج بھاردواج نے اپنے پتے اتنی ہوشیاری سے کھیلے ہیں کہ اگر ان میں تھوڑا سا بھی ضمیر بچا ہے تو خود گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔
ہمیں پتہ نہیں شری ہنسراج بھاردواج کو کیا ہوگیا ہے۔ ایک دن مرکزی سرکار کو یدورپا سرکار کو برخاست کرنے کی سفارش کرتے ہیں تو اس سے اگلے دن یدی رپا کی شان میں قصیدے پڑھنے لگتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ان سب تنازعات و حماقتوں کے باوجود کرسی سے چپکے رہنا چاہتے ہیں۔ خود کو واپس بلائے جانے کے بھاجپا کے مطالبہ پر انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ گورنر کے طور پر ان کی تقرری صدر نے کی تھی اور ان کے علاوہ انہیں (بھاردواج) کو واپس نہیں بلایا جاسکتا۔ گورنر محترم اگر آپ سے ہم یہ ہی سوال کریں کہ کرناٹک کی عوام نے یدی رپا ہو نہ صرف چنا ہے بلکہ واضح اکثریت بھی دی ہے تو آپ کون ہوتے ہیں انہیں برخاست کرنے والے؟دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمیں پتہ نہیں لگتا کہ ہنسراج بھاردواج کانگریس کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ مرکز ی سرکار و کانگریس پارٹی بیشک یدی رپا سرکار کی موجودگی سے خوش نہ ہو لیکن وہ اس حد تک نہیں جاسکتی کہ ایک واضح اکثریت والی منتخب سرکار کو بلا وجہ ہٹایا جائے۔ تبھی تو وزیر اعظم نے صاف طور پر کہا کہ کوئی غیر آئینی کام نہیں ہوگا۔ جب مرکز کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے تو گورنر موصوف کس کے ایجنڈے پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں؟
شری ہنسراج بھاردواج نے اپنی جانبدارانہ سفارش سے نہ صرف مرکزی حکومت کو پریشان کیا ہے بلکہ گورنر کے عہدے کے وقار کو بھی داغدار کیا ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ایک طرف وہ یدی رپا کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ان کے پاس بھاری اکثریت ہے تو دوسری جانب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے ریاستی کیبنٹ کی درخواست کو منظور کرنے سے پہلے اپنی سفارش پر مرکزی حکومت کے فیصلے کا انتظار بھی کررہے ہیں۔ کیا انہیں ابھی بھی یقین ہے کہ مرکزی حکومت ان کی سفارش مانتے ہوئے کرناٹک میں صدر راج تھونپ سکتی ہے؟ دراصل شری ہنسراج بھاردواج نے اپنے پتے اتنی ہوشیاری سے کھیلے ہیں کہ اگر ان میں تھوڑا سا بھی ضمیر بچا ہے تو خود گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔
Tags: Anil Narendra, H R Bhardwaj, Karnataka, Vir Arjun, Yadyurappa
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں