راہل جی اب آپ پیٹرول پمپ پر جاکر دھرنا کیوں نہیں دیتے؟

Daily Pratap, Indias Oldest Urdu Daily
شائع 18مئی2011
انل نریندر
پیٹرول کی قیمت میں5 روپے فی لیٹر کے اضافے کے خلاف سڑکوں سے لیکر انٹر نیٹ اور فیس بک میں بھی زور شور سے احتجاج جاری ہے۔ لوگوں نے جم کر فیس بک میں سرکار کو طعنے مارے ہیں۔ ایک زور دار تبصرہ تو یہ ہے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی کو اسی طرح دھرنے پر بیٹھ جانا چاہئے جیسے وہ گریٹر نوئیڈا کے گاؤں میں جا بیٹھے تھے۔ فیس بک پر دلچسپ تبصرہ کرنے والے مشہور سماجی کارکن امن چھنا نے لکھا ہے کہ راہل جی کو فوراً بائیکل لیکر قریب کے پیٹرول پمپ کا دورہ کرنا چاہئے، وہاں دھرنا دینا چاہئے اور گرفتاری دینی چاہئے۔ لیکن کانگریس کے پاس شاید اس کا بھی جواب حاضر ہے۔ کانگریس کا ہاتھ غریب کے ساتھ ہے اور بیچارہ غریب تو پیٹرول خریدتا ہی نہیں۔ سڑکوں کے ساتھ ساتھ فیس بک پر پیٹرول کی قیمتوں میں ا ضافے کے خلاف تحریک چھڑی ہوئی ہے۔
رہی بات غریب کی تو غریب تو پہلے ہی سے بری طرح پس رہا ہے۔ پیٹرول کے دام بڑھنے کے بعد بھی وزیر مالیات پرنب مکھرجی نے اتوار کو کہا کہ اگلے ہفتے ڈیزل اور رسوئی گیس کے دام بڑھانے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ ان کے دام بڑھے تو اس کا سیدھا اثر روز مرہ کی استعمال ہونے والی چیزوں پر پڑنے والا ہے۔
جنتا کے کئی اہم خرچے پہلے ہی بڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی اور بڑھتی قیمتوں نے آپ کی جیب کو آہستہ آہستہ ڈھیلا کرنا شروع کردیا ہے اور گھر کے بجٹ کو بری طرح سے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سنیچر سے پیٹرول کی قیمت63 روپے37 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ اگر آپ اپنی گاڑی سے روز آنے جانے میں دو لیٹر پیٹرول خرچ کرتے ہیں تو پچھلے 12 مہینے میں آپ کا خرچ قریب 1 ہزار روپے ماہانہ بڑھ جائے گا اور مستقبل قریب میں پیٹرول کے دام گھٹنے کے بجائے اور بھی بڑھ سکتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں دودھ کی۔ ممکن ہے آپ کے گھر میں کل راشن جتنے روپے کا آتا ہے اکیلے دودھ کا خرچ اس سے زیادہ پیچھے نہیں رہے گا۔ ایک سال پہلے فل کریم دودھ 28 روپے فی لیٹر ہوا کرتا تھا اب یہ 36 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اگر آپ کے گھر روزانہ دو لیٹر دودھ آتا ہے تو پچھلے ایک سال میں دودھ کا خرچ500 روپے ماہانہ بڑھ گیا ہے۔
گرمی کے سیزن میں یہ دام اور بھی بڑھ سکتے ہیں۔ اب ذرا اسکول کی فیس پر نظر ڈالیں، ہم بات صرف ٹیوشن فیس کی کررہے ہیں جس میں اضافہ صاف نظر آتا ہے۔ دہلی میں اوسط درجے کے اسکول کی ٹیوشن فیس10 فیصد تک بڑھی ہے اور این سی آر میں یہ اضافہ40 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اسکول فیس اور باقی خرچوں میں بے حساب اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ڈولپمنٹ چارج اور دیگر کھیل سرگرمیوں و دیگر مدوں میں خرچے کافی بڑھ گئے ہیں اور کہنے کو ای ایم آئی پچھلے ایک سال میں قرض کی شرح پر2.5 فیصد بڑھی ہے۔
آج کی تاریخ میں آپ کی جیب کا دشمن نمبر یہ ای ایم آئی بن گئی ہے۔اور عام طور پر اگر آپ نے دس لاکھ روپے 20 سال کے لئے قرض لے رکھا ہے تو اس کی قسط میں ماہانہ 1700 روپے جڑ جاتے ہیں۔ اور کار لون و پرسنل لون کی قسط کی بات رہی الگ۔ دوائیں سرکارکے کنٹرول بالی بازار میں نہیں ملتیں جبکہ وہ سستی ہیں مگر دکاندا روں کو 10فیصدبڑھانے کی اجازت ہے لیکن کمپنیاں اپنی منمانی کرتی ہیں اور دواؤں کی قیمتیں مقرر کرنے سے پہلے ہی ان کے دام بڑھا کر چھاپ دئے جاتے ہیں جن میں زیادہ توازن نہیں ہے جن کی قیمت 5 سے18 فیصد بڑھی ہے پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ آپ جو دوا لے رہے ہیں وہ اصلی ہے یا نقلی ؟

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!