چناؤنتائج کانگریس کیلئے زیادہ خوشی کم غم لیکر آئے ہیں
Daily Pratap, Indias Oldest Urdu Daily |
شائع17 مئی2011
انل نریندر
انل نریندر
پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ نتائج کانگریس کے لئے تھوڑی خوشی تھوڑا غم لیکر آئے ہیں۔ خوشی اس لئے کہ تاملناڈو اور اس کے پڑوسی مرکزی زیر انتظام ریاست پڈوچیری کو چھوڑ کر کانگریس اوراس کی اتحادیوں کا پرچم ہر جگہ لہرایا ہے۔وزیر مرکز میں بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا کا ان ریاستوں میں تقریباً پتا ہی صاف ہوگیا۔ پارٹی کیلئے سب سے زیادہ راحت آسام میں ملی جہاں اس نے تیسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کی ہے اور پچھلی بار سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں۔ کیرل میں اس کی قیادت والا یوڈی ایف اقتدار میں ضرور پہنچا ہے لیکن معمولی اکثریت کے ساتھ جہاں اس کی نیا کبھی بھی ڈوب سکتی ہے۔ مغربی بنگال میں پوری جیت ممتابنرجی کی ہوئی ہے جبکہ تاملناڈو میں جہاں ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالہ بڑا اشو تھا جس وجہ سے یہاں ڈی ایم کے کا صفایا ہوگیا۔ پڈوچیری بھی کانگریس کے ہاتھ سے نکل گیا اور سب سے خطرناک خبر کانگریس کے لئے آندھرا پردیش سے آئی ہے جہاں اپنے سب سے بڑے گڑھ میں ہوئے ضمنی چناؤ میں اس کے بڑے نیتا چناؤ بری طرح ہار گئے ہیں بلکہ اس کے باغی لیڈر جگن موہن ریڈی اور ان کی ماں جیت گئی ہیں۔
اگر مرکزی سیاست کو دیکھیں تو مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کا اکیلے اکثریت پاجانا کانگریس اور یوپی اے لیڈر شپ کے لئے پریشانی کھڑی کرسکتا ہے۔ ممتا کا اب یوپی اے سرکار میں نہ صرف دبدبہ بڑھ جائے گا بلکہ اس کی سودے بازی کا حق بھی زیادہ ہوجائے گا۔ یہ ہی حال جے للتا کا بھی ہوگا۔ جے للتا کی سودی بازی کی طاقت کے بارے میں تو کانگریس کو اچھا تجربہ ہے۔ ممتا نے کانگریس کو مغربی بنگال سرکار میں شامل ہونے کو کہا ہے اور سرکار میں شامل ہونے کا فیصلہ کانگریس کو کرنا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو اس کے پاس ہاں کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔مرکزی سرکار میں اگرچہ دونوں پارٹیاں شامل ہیں تو مغربی بنگال میں کیوں نہیں۔ کانگریس کے کچھ لیڈروں کی مانیں تو ممتا کی شاندار جیت میں کانگریس کی حکمت عملی کچھ وقفے کے لئے پنکچر کردی ہے۔ کل ملا کر ریاست اور مرکز دونوں کی سیاست کے حساب سے ترنمول کا گراف اس وقت کافی اونچا ہے۔
ان پانچ ریاستوں کے نتیجے کو کانگریس نے لیڈ میچ مانتے ہوئے اگلے سال ہونے والے اترپردیش۔ پنجاب۔ اترا کھنڈ کے کواٹر فائنل کی شروعات کردی ہے۔ نتیجوں کا جائزہ اور آگے کی حکمت عملی بنانے کی میٹنگوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکار میں جہاں مغربی بنگال کے نتیجے پرنب مکھرجی کی طاقت میں اضافہ کرسکتے ہیں وہیں تاملناڈو میں کانگریس کی ہوئی کرکری پی چدمبرم کی اہمیت پر سوال کھڑے کر سکتی ہے۔ ممتا کے وزیر اعلی بننے سے خالی ہونے والی ریل وزارت کی کمان کس کو سونپنے کے ساتھ ساتھ کئی سینئر وزراء کے دماغوں میں محکموں میں رد و بدل کرکے حکومت اور تنظیم کو اگلے سال ہونے والے اترپردیش پنجاب اور اتراکھنڈ و آخر میں گجرات اور ہماچل کے چناؤ کیلئے تیار کرنا کانگریس لیڈر شپ کی اب ترجیح ہونی چاہئے۔ کل ملاکر یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے نتیجے کانگریس کے لئے زیادہ خوشی اور کم غم لیکر آئے ہیں۔
اگر مرکزی سیاست کو دیکھیں تو مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کا اکیلے اکثریت پاجانا کانگریس اور یوپی اے لیڈر شپ کے لئے پریشانی کھڑی کرسکتا ہے۔ ممتا کا اب یوپی اے سرکار میں نہ صرف دبدبہ بڑھ جائے گا بلکہ اس کی سودے بازی کا حق بھی زیادہ ہوجائے گا۔ یہ ہی حال جے للتا کا بھی ہوگا۔ جے للتا کی سودی بازی کی طاقت کے بارے میں تو کانگریس کو اچھا تجربہ ہے۔ ممتا نے کانگریس کو مغربی بنگال سرکار میں شامل ہونے کو کہا ہے اور سرکار میں شامل ہونے کا فیصلہ کانگریس کو کرنا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو اس کے پاس ہاں کہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔مرکزی سرکار میں اگرچہ دونوں پارٹیاں شامل ہیں تو مغربی بنگال میں کیوں نہیں۔ کانگریس کے کچھ لیڈروں کی مانیں تو ممتا کی شاندار جیت میں کانگریس کی حکمت عملی کچھ وقفے کے لئے پنکچر کردی ہے۔ کل ملا کر ریاست اور مرکز دونوں کی سیاست کے حساب سے ترنمول کا گراف اس وقت کافی اونچا ہے۔
ان پانچ ریاستوں کے نتیجے کو کانگریس نے لیڈ میچ مانتے ہوئے اگلے سال ہونے والے اترپردیش۔ پنجاب۔ اترا کھنڈ کے کواٹر فائنل کی شروعات کردی ہے۔ نتیجوں کا جائزہ اور آگے کی حکمت عملی بنانے کی میٹنگوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکار میں جہاں مغربی بنگال کے نتیجے پرنب مکھرجی کی طاقت میں اضافہ کرسکتے ہیں وہیں تاملناڈو میں کانگریس کی ہوئی کرکری پی چدمبرم کی اہمیت پر سوال کھڑے کر سکتی ہے۔ ممتا کے وزیر اعلی بننے سے خالی ہونے والی ریل وزارت کی کمان کس کو سونپنے کے ساتھ ساتھ کئی سینئر وزراء کے دماغوں میں محکموں میں رد و بدل کرکے حکومت اور تنظیم کو اگلے سال ہونے والے اترپردیش پنجاب اور اتراکھنڈ و آخر میں گجرات اور ہماچل کے چناؤ کیلئے تیار کرنا کانگریس لیڈر شپ کی اب ترجیح ہونی چاہئے۔ کل ملاکر یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے نتیجے کانگریس کے لئے زیادہ خوشی اور کم غم لیکر آئے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں