پانچ ریاستوں کے کوارٹر فائنل کے بعد سیمی فائنل یوپی کی باری

Daily Pratap, Indias Oldest Urdu Daily
شائع 18مئی2011
انل نریندر
پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ مرکز میں اقتدار کے کھیل کا ایک طرح سے کوارٹر فائنل میچ تھا ۔ اب باری ہے سیمی فائنل کی۔ یہ سیمی فائنل10 مہینے کے بعد اترپردیش میں ہونے والا ہے۔ اگر بہن جی نے چاہا تو یہ اس سے پہلے بھی ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہوگی کہ یوپی کے سیمی فائنل میں وہ ٹیمیں خاص طور پر کھیلیں گی جو کوارٹر فائنل میں صرف معاون کے کردارمیں نظر آئیں گی۔ یہ پرانی کہاوت ہے کہ دہلی کی گدی کا راستہ اترپردیش سے ہوکر جاتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے یوپی اسمبلی چناؤ اور بھی اہم ہوگئے ہیں۔ کانگریس اور بھاجپا کیلئے نہ صرف صوبے کی سیاست اس پر منحصر کرتی ہے بلکہ مرکزی سیاست میں بھی یوپی کی اپنی اہمیت ہے۔ سب کی آنکھیں محترمہ مایاوتی پرلگی ہوئی ہیں۔ پانچ ریاستوں کے نتائج آئے ۔ یہ عجب اتفاق ہی ہے کہ اسی دن یوپی میں مایاوتی حکومت نے سنیچر کو اپنے چار سال پورے کئے۔ اب اس کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ اگلے12 مہینے اترپردیش کے لئے سیاسی طور سے بیحد گہما گہمی سے بھرے رہیں گے۔ یوپی میں اے اور بی ٹیم تو بسپا اور سپا کی ہی رہے گی۔ اہم لڑائی بھی ان دونوں میں ہی ہونے والی ہے۔ واضح اکثریت پاکر پہلی مرتبہ پائیدار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی مایاوتی کے لئے یہ سال کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اپنا گڑھ بچائے رکھنے کیلئے وہ ہر ممکن کوشش کریں گی۔ ادھر ملائم سنگھ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو پانے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دیں گے۔ سپا اپنے دم پر چناؤ لڑے گی۔ پارٹی نے 403 میں سے270 نشستوں پر اپنے امیدواروں کا بھی اعلان کردیا ہے۔ ملائم نے پورا زور اپنا روایتی یادو اور مسلم ووٹ بینک پر لگایا ہوا ہے۔
مغربی بنگال سے لیکرتاملناڈو تک اقتدار مخالف رجحان بہن جی کے لئے تشویش کا موضوع ہونا چاہئے۔ اگر مغربی بنگال میں نندی گرام اور سنگور میں حکمراں پارٹی لیفٹ کے خلاف ماحول بنایا تو اگرپردیش میں گھوڑی اور بچھڑا اور یہاں پارسول کی کسان تحریک مایاوتی حکومت کے خلاف ماحول بنا رہی ہے۔ حالانکہ یہاں قانون و نظم کے حالات میں بہتری آئی ہے لیکن کچھ بسپا ممبران کے سبب وصولی اور ٹھگی اور لوٹ مار و آبروریزی اور قتل وغیرہ کی وارداتوں نے ماحول کو ضرور آلودہ کیا ہے۔ شکروار کو جب کئی ریاستوں کے چناؤ نتائج آرہے تھے تو مشرقی اترپردیش میں بچھڑائیوں اسمبلی سیٹ کا ابھی نتیجہ آیا ہی تھا اسی سیٹ پر بسپا کہنے کو خود چناؤ نہیں لڑ رہی تھی لیکن ایک شراب تاجر کو پوری حمایت دی ہوئی تھی اور یہ امیدوار بری طرح سے ہار گیا۔ اس چناؤ نے اترپردیش کی سیاست کے لئے دونوں پیغام دئے ہیں۔ حکمراں پارٹی سے اگر اپوزیشن متحد ہوکر لڑی تو بسپا کے لئے مشکلیں کھڑی ہوجائیں گی ، دوسرے فرقہ پرستوں کے لئے بھی اب جیت آسان نہیں ہے۔ اس چناؤ میں پروانچل میں ہندوتو کے سب سے بڑے نیتا یوگی ادیتے ناتھ کی ہار ہوئی ہے، جو اس چناؤ کے لئے ایک وقار کا سوال بنائے ہوئے تھے۔مایاوتی کی سالگرہ کے سلسلے میں چل رہی وصولی کے بعد ایک انجینئر کے قتل سے جو ماحول خراب ہو وہ ایک کے بعد ایک واقعات سے بسپا کے کئی وزراء اور ممبران اسمبلی کو بے نقاب کرگیا۔ اس کی حرکتوں سے مایاوتی کی ساکھ کے وہ ایک سخت ایڈ منسٹریٹر ہیں ، کو بھی دھکا لگا ہے۔ لوگ مایاوتی کے اس نعرے کو یاد دلاتے ہیں غنڈوں کی چھاتی پر پیر لگاؤ اور مہر لگاؤ ہاتھی پر۔ ان سب خامیوں کے باوجود مایاوتی کا آج بھی پلڑا بھاری لگتا ہے۔ ریاست میں انہوں نے کافی کام کیا ہے لیکن آنے والے کچھ مہینے سبھی کے لئے اہمیت کا حامل ہوں گے۔
Read this Article In Hindi: http://anilnarendrablog.blogspot.com/2011/05/5.html

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!