مودی کے بیان پر بین الاقوامی میڈیا !

حکمراں بی جے پی مسلسل تیسری بار اقتدار میں آنے کیلئے اپنا پورا دم خم لگا رہی ہے تو وہیں انڈیا اتحاد بھی ایڑھی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے ایسے میں نیتاو¿ں کی تقریر اور ان کے دعوے اور دوسری پارٹیوں کے نیتاو¿ں کو لیکر دئیے بیان ہر روز اخبارات کی سرخیاں بن رہے ہیں لیکن پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعد اب وزیراعظم کا دیا ایک بیان خاص طور سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ہندوستانی میڈیا کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اسے اپنے صفحات پر جگہ دی ہے۔استعمال کئے گئے کچھ خاص لفظوں کے سبب یہ تقریر چناو¿ کمیشن میںپی ایم مودی کی شکایت کا سبب بنی ہے ۔19 اپریل کو پہلے مرحلے کی پولنگ ختم ہوئی اس کے بعد 21 اپریل کو راجستھان کے بانسواڑہ میں چناو¿ ریلی میں دی گئی تقریر میں پی ایم مودی نے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے ایک پرانے بیان کا حوالہ دیا اور مسلمانوں پر رائے زنی کی ۔پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں فرقہ خاص کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا جیسی باتیں کہیں اپنی تقریر میں مودی نے کہا تھا کہ جب پہلے ان کی سرکار تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ دیش کی املاک پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے اس کا مطلب یہ پراپرٹی اکھٹا کرکے اس کوبانٹیں گے جن کے زیادہ بچے ہیں ۔ان کو بانٹیں گے گھسپیٹھیوں کو بانٹیں گے کیا آپ کو یہ منظور ہے ۔حالانکہ پی ایم مودی نے منموہن سنگھ کے جس 18 سالہ پرانی تقریرکا ذکر کیا ہے اس میں منموہن سنگھ نے ایسا کچھ نہیں کا تھا سال 2006 میں منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ درج فہرست ذاتوں ،قبائلیوں کو نئی زندگی دینے کی ضرورت ہے انہیں نئی اسکیمیں لاکر یہ یقینی کرنا ہوگا کہ اقلیتوں کا خاص کر مسلمانون کی بھی بھلائی ہو سکے ۔وکاس کا فائدہ انہیں مل سکے ۔ان سبھی کا وسائل پر پہلا دعویٰ ہونا چاہیے ۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے 22 اپریل کو اسے لیکر مودی پر چناوی ریلی میں مسلمانوں کے خلاف نفرتی تقریر کرنے کے الزام کے عنوان سے رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے ۔اس میں اس نے لکھا ہے کہ بانسواڑہ میں دی گئی تقریر کے بعد 22 اپریل کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں مودی نے اسی طرح کا ایک اور تقریر کی ۔اس رپورٹ میں بھارت کی شہریت قانون کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔لکھا گیا ہے کہ اس قانون کی یہ کہہ کر تنقید کی گئی کہ اس میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی بات کی گئی ہے جو دیش کے سیکولرزم کے اصولوں سے الگ ہے ۔ٹائم میگزین نے لکھا ہے کہ بھارت کی آبادی 1.44 ارب ہے اور مودی کی بی جے پی کی تنقید مسلمان فرقہ کو باہر سے آئے غیر ملکیوں کی شکل میں دیکھنے کے لئے ہوتی رہی ہے ۔تنقید نگار کہتے ہیں کہ مودی کے تبصرے کی بنیاد تقسیم کاری ہندو راشٹر واد ہے ۔جس کے تار حکمراں بی جے پی سے جڑتے ہیں ۔نیویارک ٹائمس نے اس پر 23 اپریل کو اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مودی نے بھارت کے مسلمانوں کو گھس پیٹھیا کیوں کہا کیوں کہ وہ ایسا کر سکتے تھے ۔نیویارک ٹائمس نے لکھا ہے کہ اپنے اقتدار کو محفوظ مان کر پی ایم مودی اقتصادی اور سفارتی سطح پر دیش کی ترقی کو لیکر ورلڈ لیڈر کے طور پر خود کو پیش کررہے تھے ایسا کرکے وہ پارٹی کی رائج تقسیم کاری رویہ سے خود کو الگ رکھے ہوئے تھے ۔اس طرح کے معاملوں میں ان کی خاموشی تھی اس درمیان کٹر پسند نظریہ والے غیر ہندو فروقوں کو نشانہ بنا رہے تھے اور ان کی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ میں نسلی اور نفرتی الفاظ کا استعمال کررہے تھے ۔ایک اور اخبار الجزیرہ نے لکھا ہے کہ مقامی چناو¿ حکام نے تصدیق کی ہے کہ انہیں مودی کی تقریر سے جڑی شکایتیں ملی ہیں جن کی وہ جانچ کررہے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!