ثبوتوں کی کمی میں سبھی سمجھوتہ ایکسپریس کے ملزمان بری

پنچکولہ کی اسپیشل این آئی اے کورٹ نے سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ کیس میں 12سال بعد ملزم اسیما نند سمیت چاروں ملزمان کو ثبوتوں کی کمی کے چلتے بر کر دیا ہے ۔واضح ہو کہ اس ٹرین دھماکے میں متعدد لوگوں کی موت ہو گئی تھی یہ حادثہ رات ساڑھے 11بجے دہلی سے 80کلو میٹر دور پانی پت کے دوانا ریلوئے اسٹیشن کے پاس ہوا تھا دھماکوں کی وجہ سے ٹرین میں آگ لگ گئی تھی اور اس میں عورتوں اور بچوں سمیت کل 68لوگوں کی جان چلی گئی تھی ۔19فروری کو جی آر پی (ہریانہ پولس) نے معاملے میں مقدمہ درج کیا تھا اورقریب ڈھائی سال بعد واردات کی جانچ کی ذمہ داری 29جولائی 2010کو این آئی اے کو سنوپی گئی تھی ۔بھارت پاکستان کے درمیان ہفتے میں دو بار چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں 16فروری 2007کو دھماکہ ہوا تھا این آئی اے نے 26جون 2011کو پانچ لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی اور معاملے میں 224گاﺅں کے بیان درج ہوئے تھے ۔عدالت نے معاملے میں شامل وکیل ممومن ملک کی جانب سے سی آر پی سی کی دفعہ 311کے تحت گواہی کے لئے داخل عرضی کو خارج کر دیا تھا اب مقدمے میں 11مارچ کو ہی فیصلہ آنے کی قیاس آرائیاں تھیں لیکن آخری لمحہ میں مقدمے میں نیا موڑ آگیا تھا ۔پاکستان کی ایک خاتون وکیل راہیلا کے میل کی بنیاد بناتے ہوئے وکیل مومن نے عرضی لگائی تھی کہ وہ اس کیس میں کچھ چشم دید لوگوں کی گواہی کرانا چاہتی ہیں چونکہ اس حادثہ میں ان کے والد کی موت ہوئی تھی عدالت نے عرضی یہ کہتے ہوئے خارج کر دی کہ 12سال تک یہ لوگ کہاں تھے؟فیصلے کے وقت عرضی معنی نہیں رکھتی اوراس معاملے میں سوامی اسیمانند اور تین دیگر ملزمان کو بری کرنے والی عدالت نے کہا کہ بھروسہ مند اور قابل قبول ثبوت کی کمی کی وجہ سے تشدد کی اس بے رحمانہ حرکت میں کسی گنہ گار کو سزا نہیں مل پائی ہے ۔این آئی اے عدالت کے جسٹس جگدیپ سنگھ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مجھے گہرے درد اور تکلیف کے ساتھ فیصلہ سنانا پڑ رہا ہے ۔چونکہ ثبوتوں کی کمی کے چلتے کسی گنہ گار کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔عدالت کو مقبول یا موثر رائے کے علاوہ سیاسی تقریروں کے تحت آگے نہیں بڑھنا چاہیے اور اسے موجودہ ثبوتوں کو غور کرتے ہوئے جائز آئینی تقاضوں کی بنیاد پر نتیجے پر پہنچنا چاہیے ۔بلا شبہ ،یہ حیرانی کی بات ہے اتنا سنگین واقعہ میں کسی کو سزا نہیں دی جا سکی چھان بین میں کہاں کمی رہ گئی؟اگر ہم دہشتگردی کے واقعہ کو بھی عدالت میں ثابت نہیں کر پاتے ہیں تو دہشتگردی سے لڑنے کا دعوی کیسے کر سکتے ہیں ؟اس معاملے میں این آئی اے کا ٹریک ریکارڈ مایوس کن رہا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟