ہمارے فوجیوں کو پتھر بازوں سے حفاظت ملے

ڈیوٹی کے دوران کشمیر میں پتھر بازوں کے حملوں کا شکار ہونے والی سیکورٹی فورسیز کے جوانوں کی حفاظت و انصانی حقوق تحفظ کو لے کر فوجی کنبوں کی دو بیٹیاں سپریم کورٹ میں معاملہ لے کر پہنچ گئی ہیں ۔چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے 19سالہ پریتی کیدار گوکھلے اور 20سالہ لڑکی کاجل مشرا کی عرضی کو سماعت کے لئے اجازت دے دی ہے ۔پریتی کیدار گوکھلے کا کہنا ہے کہ انہیں سرحد پر تعنیات جوانوں پر پورا بھروسہ ہے ان کے باپ خود فوج کے افسر ہیں وہ کبھی اس بات کو فکر مند نہیں ہوتی جنگ کے حالات بن جاتے ہیں تو کیا ہوگا ؟ان کا درد ہاتھ میں ہتھیار ہونے کے باوجود کشمیری لڑکوں کے پتھر کھا رہے جوانوں کو لے کر ہے پریتی نے کہا کہ میں یہاں ٹیلی ویزن پر جوانوں پر پتھراﺅ ہوتا دیکھتی ہوں ان کی بے عزتی محسوس کرتی ہوں اور خود بھی اپنے آپ کو بے عزت محسوس کرتی ہوں پتھر بازی کرنے والے کشمیری لڑکوں کو انصانی حقوق کی آڑ میں بچا لیا جاتا ہے ۔لیکن ان کے پتھروں سے زخمی جوانوں کے انسانی حقوق کہاں ہوتے ہیں ؟سپریم کورٹ حکومت کو ہدایت دے کہ وہ ان کے تحفظ کے لئے کوئی با قاعدہ پالیسی تیار کرئے اور تاکہ سیکورٹی فورس کے جوانوں کے بنیادی حقوق محفوظ رہیں ۔میں اس بات سے بہت دکھی ہوئی جن سیکورٹی فورسیز کو امن قائم رکھنے کے لئے تعینات کیا گیا ہے ان پر پتھر بازی سے حملہ کیا جاتا ہے جب سیکورٹی فورسیز اپنی حفاظت کے لئے کوئی جوابی کاروائی کرتے ہیں تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے جبکہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔اتنا ہی نہیں جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ پتھر بازوں کے خلاف 9760ایف آئی آردرج واپس لی جائیں گی کیونکہ ان کا پہلا جرم ہے ،عرضی گذاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کو قانون میں دی گئی کارروائی پر عمل کئے بغیر اس طرح ایف آئی آر واپس لینے کا اختیار نہیں ہے ۔اب یہ لوگ چناﺅ کے مخالفت میں پتھر بازی کرنے لگے ہیں اپنے پاک حمائتی آقاﺅں کے اشارے و پیسے پر یہ ہمارے جوانوں پر موقعہ دیکھتے ہی پتھر بازی شروع کر دیتے ہیں ہمارے جوانوں کو جہاں پوری چھوٹ اور حفاظت ملنی چاہیے وہیں سیکورٹی فورسیز کو بھی اپنی حفاظت میں طے حد کو پار نہیں کرنا چاہیے ۔فوج کے اگر آپ ہاتھ باندھ دیں گے اور کہیں گے کہ آپ ان علیحدگی پسندوں اور ان کے حمائیتوں سے نمٹے تو یہ ممکن نہیں ہے ۔فوج بندھے ہاتھوں سے اپنا کام نہیں کر سکتی ہم ان بچیوں کی مانگ کی حمایت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں جو کام مرکزی سرکار اپنی ووٹ کی سیاست کے چلتے نہیں کر پا رہی ہے وہ سپریم کورٹ کرئے گی ۔دیکھیں آگے عدالت میں معاملے پر کیا ہوتا ہے؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟