کانگریس کے ذریعہ زمینی اشوز پر اسٹرائک کرنے کی کوشش ہے چناﺅ منشور

پی ایم مودی کے پچھلے چناﺅی وعدوں کو لے کر مسلسل حملہ آور رہی کانگریس نے منگل کے روز اپنا چناﺅی منشور جاری کیا ۔جس میں نئی نوکریوں کے ذریعہ اگلے پانچ سال میں بے روزگاری کو کم کرنے کسانوں کی حالت سدھارنے ،جی ایس ٹی کا سنگل ریٹ ،غریبوں کو 72ہزار روپئے سالانہ دینے جیسے وعدے کئے گئے چناﺅ منشور جاری کر جہاں پارٹی نے باقاعدہ وعدوں اور اسکیموں کا ذکر کرتے ہوئے عوام کے درمیان انہیں زمین پر اتارنے کا بھروسہ جگایا،وہیں دیش کا نیگیٹو راشٹر واد اور ہندو مسلم سے دھیان ہٹا کر زمینی اشوز پر لانے کی ہے۔راہل گاندھی یہ ثابت کرتے نظر آئے کہ بی جے پی راشٹر واد اور فرقہ پرستی ،ائیر اسٹرائک جیسے اشوز کے ذریعہ کسانوں،روزگار اور معاشی نظام کی بد حالی جیسے اشوز سے لوگوں کا دھیان بھٹکا رہی ہے ۔کانگریس کی کوشش رہی ہے کہ اس کی ایمج فلاحی اسکیموں کو دینے والی پارٹی اور سرکار انہیں پہلی نظر میں چناﺅ منشور کو کافی غور خوض کر چناﺅ کے نظریہ سے تیار کیا گیا ہے ۔اسے ایک پرکشش دستاویز کہا جا سکتا ہے ۔چناﺅ منشور میں بنیادی باتیں وہیں ہیں جو پچھلے کچھ عرصے سے پارٹی صدر راہل گاندھی بار بار اُٹھاتے رہے ہیں ۔یہ نیاے یوجنا ،روزگار،کسان،تعلیم،ہیلتھ،اور سیکورٹی جیسے پانچ بنیادی اصولوں پر ٹکا ہوا ہے ۔20فیصد غریبوں کے کھاتے میں ہر سال 72ہزار روپئے ڈالنے والی نیاے یوجنا کو راہل پہلے ہی پیش کر چکے تھے۔اس لئے چناﺅ منشور میں اس کا شامل ہونا فطری ہی ہے جولائی 1951میں بینگلورو میں ہوئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں دیش کے پہلے عام چناﺅ کے لئے کانگریس کا منشور جاری کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ کسی بھی چھل والے طریقہ سے یا شخص کے ذریعہ سے کوئی چناﺅ جیتنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو بچا کر رکھیں ،مرنے نہ دیں ۔کسی بھی ملک کی تاریخ کسی ایک چناﺅ سے نہیں بنتی وہ بنتی ہے وہاں کے لوگوں کی زندگی کے اصولوں سے ۔اس بات کو گزرے 68برس ہو گئے اس دوران کانگریس قیادت کی چار پیڑھیاں بدل چکی ہے کانگریس نے 2019کے اپنے چناﺅ منشور میں بیشک جنتا سے سیدھے اشوز پر توجہ دے ہی لیکن کچھ وعدوں پر انگلیاں بھی اُٹھ رہی ہیں ۔مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ ملک کی غداری کی دفعہ 124Aکو ہٹایا جائے گا ،افسپا قانون میں ترمیم کرنے کے وعدے سے لگ رہا ہے کہ پارٹیوں کے ایجنڈے میں چناﺅی جیت بالا تر ہے بھلے ہی اس سے دیش کو نقصان ہو سرکار آنے پر آئی پی سی کی دفعہ124Aکو ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے راہل گاندھی نے دلیل دی ہے اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور بعد میں آئے قوانین کی وجہ سے یہ بے کار بھی ہو گیا ہے ۔کیا یہ خطر ناک چناﺅی وعدہ نہیں ہے ؟افسپاقانون میں ترمیم کی بات بھی کہی گئی ہے حال میں کشمیر اور کچھ شمال مشرقی ریاستوں میں یہ قانون لاگو ہے ان دونوں مسئلوں کو لے کر پچھلے کئی برسوں سے ایک لمبی بحث چھڑی ہوئی ہے اور کچھ انسانی حقوق انجمنیں ان کو ہٹانے کی مانگ بھی کر رہی ہیں ۔کچھ وقت پہلے سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے بھی اس قانون پر نظر ثانی کی ضرورت ظاہر کی تھی اب کانگریس نے اس سمت میں پہل کر دی ہے لیکن شہری حقوق کے نام پر دیش کی سلامتی کے ساتھ سمجھوتا کرنا کہاں تک انصاف پر مبنی ہے؟اگر قانون میں کہیں کچھ غلط ہو راہا ہے تو درست کرنے کے لئے سپریم کورٹ بیٹھا ہے ۔قابل غور ہے کہ 1870میں ملک کی بغاوت کا قانون انگریزوں نے ہندوستانیوں کے لئے بنایا تھا لیکن دیش میں دہشتگردی کے تیزی سے بڑھنے کے سبب ایسے قانون ہونے کے اپنے معنی ہیں ایسے دور میں جب پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر ہوئے حملے اور پھر بالاکوٹ میں آتنکی کیمپ پر کی گئی کارروائی کے بعد جب بھاجپا نے قومی سلامتی کو چناﺅی اشو بنا دیا ہے ۔ملک غداری سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 124اے کو ختم کرنے اور متنازعہ قانون افسپا میں ترمیم کرنے کا وعدہ کر کانگریس نے اسے اپنے خلاف ایک بڑا اشو بھاجپا کو دے دیا ہے ۔کل ملا کر چناﺅی نظریہ سے کانگریس نے سپنے بہتر دکھائے ہیں لیکن اس سب کے تعبیر ہونے کو لے کر شبہ ضرور ہے کانگریس نے جنتا کے وقار اور ضمیر کی بات ضرور عوام کو چھوتی ہے ۔میڈیا کی آزادی سے لے کر ایس سی ایس ٹی فرقہ دیش کی اقلیتوں کے مفادات سے لے کر ٹراجنڈر سے وابسطہ اشو ز کو بھی چناﺅ منشور میں جگہ دی گئی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟