چوکسی کو اینٹیگوا کی شہریت ملنے کاسوال ؟
دیش کے بینکوں کو بھاری بھرکم چونا لگانے والے اور انہیں ڈبانے والے مالی مجرم اتنی آسانی سے پہلے تو دیش سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر دوسرے ملکوں میں پناہ لے لیتے ہیں اور کچھ تو وہاں کی شہریت لینے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں یہ ہماری سمجھ سے تو باہر ہے ۔ایسے مالی جرائم پیشہ کے خلاف سرکار کے ذریعہ سخت کارروائی کے دعوی کی زمینی حقیقت سے دور لگتے ہیں ۔یہ سمجھنا مشکل ہے کہ عام طور سے ایسے بھگوڑوں پر لگام کسنے کے بیان اور کارروائی سطح پر اتنے قدم با اثر کیوں نہیں ہوتے اس کی تازہ مثال ہے پنجاپ نیشنل بینک سے قریب 14ہزار کروڑ روپئے لے کر چمپت ہوئے میہل چوکسی کا سرکار پچھلے کچھ وقت سے مسلسل دیش کا پیسہ لے کر بیرورنی ملک بھاگنے والوں کو نہ چھوڑنے کی بات کر رہی تھی تبھی خبر آئی مہیل چوکسی نے تکنیکی طور سے بھارت کی شہریت چھوڑ دی ہے اس نے اینٹگوا میں ہندوستانی پاسپورٹ سرینڈر کر دیا کہا جا رہا ہے کہ نیرو مودی کے ماما چوکسی نے حوالگی سے بچنے کے لئے ہندوستانی شہریت چھوڑی ہے ۔اس نے گویانا میں واقع انڈین ہائی کمیشن میں جا کر ہندوستانی شہریت چھوڑنے کا میسج دے دیا ہے ۔اور اپنا ہندوستانی پاسپورٹ جما کرا دیا میہل چوکسی اور اس کے رشہ دار نیرو مودی نے مل کر پنجا ب نیشنل بینک سے لیٹر آف انڈر اسٹینڈگ حاصل کرکے بینک کو بھاری چونا لگایا ہے ۔سی بی آئی نے اس معاملہ میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کر دی ہے ۔اور انٹر پول کے ذریعہ سے نیرو مودی اور ماما میہل چوکسی کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس بھی جاری کر دیا ہے اس کے باوجود یہ سمجھنا مشکل ضرور ہے کہ انٹیگوا جیسے چھوٹے ملک اگر یہ ہمت دکھاتے ہیں کہ وہ بھارت جیسے بڑے دیش کے اقتصادی مجرم کو شہریت دے کر اور اس کے ہندوستانی پاسپورٹ کو سرنڈر کروا کر حوالگی کی کوشش کو ٹینگا دکھا سکتا ہے تو اس میں بھارت کی ہی کمزروی ثابت ہوتی ہے ۔میہل چوکسی کو جب پچھلے سال اینٹگوا کی شہریت ملی تھی تو اسے منظوری دینے میں ممبئی کے زونل پاسپورٹ دفتر میں پولس توصیفی سرٹیفیک کا بھی یوگدان رہا ۔شاید اسے یہ اندازہ رہا ہوگا کہ جو گڑبڑیاں وہ کر رہا ہے وہ ایک دن اجاگر ہو جائیں گی اور اس سے پہلے کوئی محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ لینا چاہیے سوال یہ ہے کہ ہزاروں کروڑ کی رقم کا گھوٹالہ ہوتا ہے اور بینکوں سے لے کر سرکاری مشینری اور متعلقہ محکموں تک کو بھنک آخر کیوں نہیں لگی یا پھر اس کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا اس کی وجہ کیا تھی ؟سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ نیرو مودی ،میہل چوکسی ،وجے مالیا،جیسے کئی کاروباری اتنی بڑی رقم ڈکارنے کے بعد کیسے اتنی آسانی سے بیرونی ملک بھاگ گئے دیش سے باہر جانے والے ہر شخص کی جانچ پڑتال کا جو معیار ہوتا ہے اس میں بنا کسی پلان یا ملی بھگت سے ان سب کا بھاگنا آسان نہیں تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ میہل چوکسی کو اینٹی گوا کی شہریت مل سکی تو اس میں ممبئی کے زونل پاسپورٹ اور پولس کے منظوری نامے کا بھی تعاون رہا ۔اس کے پیچھے سرکار کی لاپرواہی و ملی بھگت یا ایسے لوگوں کی سرپرستی ملی ہے حالانکہ اینٹگوا میہل چوکسی کی حوالگی کے لئے مجبور نہیں ہے اس کے باوجود مالی گھوڑوںکے تئیں بھارت کی چوکسی کا ایک اہمیت تو ہونی ہی چاہیے ۔حکومت ہند ویسٹ لینڈ سودے سے دلال مشیل کو متحدہ عمارات سے بھارت لا سکتی ہے تو انیٹیگوا سے چوکسی کو لانے میں بھی سنجیدگی دکھانی چاہیے ۔ظاہر ہے کہ اپنے تنازعوں میں الجھی سی بی آئی ان کوششوں کو تیز کرنے میں ناکام لگتی ہے اس کے پاس نہ تو ابھی مکمل ڈائرکٹر ہے اور نہ ہی افسران کے پاس آپسی جھگڑوں سے فرصت ہے اگر وقت رہتے ان مالی جرائم گھوڑوں کے خلاف سختی برتی گئی ہوتی تو آج نہ صرف وہ گرفت میں ہوتے بلکہ دیش کو ہزاروں کروڑ روپئے نقصان نہیں اُٹھانے کی نوبت آتی ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں