کیا کرپشن کے ملزم کو عہدہ پر بنا رہنا چاہئیے؟سپریم کورٹ
سی بی آئی میں جاری گھماسان پر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس نے سی وی سی کی روپورٹ پڑھ ضرور لی ہے لیکن اس پر کوئی رائے قائم نہیں کی ہے جمعرات کو سماعت کے دوران تین گھنٹے چلی بحث کے بعد عدالت نے کہا کہ سب سے پہلے وہ اس قانونی پہل پر غور کر رہی ہے سی بی آئی ڈائرکٹر کی تقرری کے وابسطہ کمیٹی کی رائے لئے بغیر سرکار کو ڈائرکٹر کی ذمہ داری لینے کا حق ہے یا نہیں ؟اس کے بعد سی بی سی رپورٹ پر غور کیا جائے گا۔دوسری طرف سی بی آئی کے ڈائرکٹر آلوک ورما سے ذمہ داری چھیننے کے اپنے حکم کو صحیح ٹھہراتے ہوئے سرکار نے کہا کہ سیلکشن اور تقرری میں فرق ہوتا ہے ۔تین نفری کمیٹی سی بی آئی کے ڈائرکٹر کے ناموں کا انتخاب کرتی ہے اور پینل تیار کر کے سرکار کو بھیجتی ہے ۔اس میں کسے چنا ہے یہ سرکار طے کرتی ہے اور سرکار ہی تقرری کرتی ہے سیلکشن کو تقرری نہیں مانا جاسکتا سی بی آئی میں کھینچ تان سے سپریم کورٹ کا کافی ناراض دکھائی پڑتی ہے ۔پچھلی بار پوشیدہ جوابوں کے سامنے آنے پر بڑی عدالت نے سماعت اچانک ملتوی کر دی تھی ۔جمعرات کو بھی سپریم کورٹ نے آلوک ورما کے سئینروکیل ایس نریمن سے سوال کیا اگر سی بی آئی ڈائرکٹر رنگے ہاتھ رشوت لیتے پکڑے جاتے ہیں تو کیا کیا جانا چاہئیے؟کیا ایسے میں بھی سیلکشن کمیٹی سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟سوال تو یہ بھی ہے کہ کرپشن کے ملزم کو ایک منٹ کے لئے بھی عہدے پر بنے رہنے دینا چاہئے ؟کورٹ کے سوال پر نریمن نے کہا کہ تب بھی سرکار کو کمیٹی یا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانہ چاہئیے۔ڈائرکٹر کی تقرری اور تبادلہ کرنے کا حق سیلکشن کمیٹی کے پاس ہے ۔کمیٹی میں وزیر اعظم ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور اپوزیشن پارٹی کے نیتا ہوتے ہیں ۔چیف جسٹس رنجن گگوئی جسٹس سنجے کیوان کول اور کے ایم جوزف کی بنچ کے سامنے مرکز کی طرف سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ سی بی آئی ڈائرکٹر کی تقرری کرنے کا اختیار سرکار کا ہے سیلکشن کمیٹی کو صرف نام کی سفارش کا حق ہے وینو گوپال سے عدالت نے پوچھا کہ کس تقاضے کے تحت سرکار نے سی بی آئی ڈائرکٹر کو ان کے کام سے ہٹانے کا حکم دیا؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرکار نے دہلی اسپیشل پولس اسٹیبلش منٹ ایکٹ کے تحت حکم جاری کیا تھا سماعت پانچ دسمبر کے لئے ٹالتے ہوئے بینچ نے کہا کہ پہلے اس پر غور کرئے گی کیا سرکار کے پاس سی بی آئی ڈائرکٹر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہے یا نہیں ؟ساتھ ہی کرپشن کے الزامات میں آلوک ورما سے حق چھیننے سے پہلے پی ایم کی سربراہی والی سلیکشن کمیٹی منظوری ضروری ہے یا نہیں ؟سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ میڈیا پر روک لگانے کی ہمایتی نہیں ہیں نہ ہی وہ اس طرح کی بات پر غور کرنے کی خواہشمند ہے جب آلوک ورما کے وکیل نریمن نے عدالت کے سابقہ حکم کا حوالہ دے کر کچھ عرصہ کے لئے التواءمعاملوں کی رپورٹنگ سے میڈیا کو روکنے کی بات کہی اور اس بارے میں غور کرنے کو کہا تو عدالت نے منا کر دیا سپریم کورٹ میں ایک بار پھر سماعت کی تاریخ آگے بڑھنے کے بعد آلوک ورما کی واپسی کی امیدیں تاریک ہوتی جا رہی ہیں ابھی تک تو سپریم کورٹ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے جس میں ورما کو راحت ملنے کے آثار نظر آتے ہوں معاملہ لمبا ہونے سے آلوک ورما کے دو سالہ بچے ملازمت عہد میں مسلسل وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ایس انہیں لگتا کہ ان کے رٹائر ہونے سے پہلے معاملہ نمٹ جائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں