بچے سے بھاری بستہ

 خوشی کی بات ہے جلد ہی پہلی اور دوسری کلاس کے بچوں کو ہوم ورک سے نجات مل جائے گی وزارت انسانی وسائل ترقی نے سبھی ریاستوں اور مرکزی حکمراں ریاستوںکو اس کی گائڈ لائنس تیار کر لاگو کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ساتھ ہی وزارت نے دسویں کلاس تک کے طلباءکے بستوں کا زیادہ سے زیادہ بوجھ بھی طے کر دیا ہے ۔ان گائڈ لائنس کے مطابق پہلی اور دوسری کے بچوں کا بستہ ڈیڑھ کلو سے بھاری نہیں ہوگا جبکہ 10ویں کلاس کے طلباءکے لئے زیادہ حد وزن 5کلو گرام طے کیا گیا ہے ۔پہلے اور دوسری کلاس کے طلباءکو صرف حساب اور زبان پڑھانے کی اجازت ہوگی تیسری سے پانچویں کلاس کے طلباءکو این سی ای آر ٹی کی سفارش کے مطابق ریاضی لینگویج اور جنر ل سائنس پڑھانے کی ہدایت دی گئی ہے ۔اسکول کے طلباءکو فاضل کتابیں اور نسابی سامان لانے کی ہدایت نہیں دے سکتے ہیں ۔جس میں بستے کا وزن بڑے اسکولی بچوں کا بوجھ کم کرنے کی مانگ کئی برسوں سے اُٹھتی رہی ہے میں نے بھی کئی بار اسی کالم میں بچے سے بھاری بستہ عنوان سے یہ سوال اُٹھایا ہے کہا جا رہا تھا کہ اپنی پسند کے پبلشروں کی کتابیں چلانے کے لئے پرائیوٹ اسکول مسلسل بستہ بھاری کرتے جا رہے ہیں دہلی میں مرکزی سرکار کی طر ف سے اسکولی طلباء کے لئے بستے کو لے کر دی گئی گائڈ لائنس کو عمل میں لانے کا کام شروع بھی کر دیا گیا ہے ۔دہلی کے محکمہ تعلیم کے ڈائرکٹر سنجے گوئل نے حکام کو گائڈ لائنس پر اسٹڈی کرنے کے احکامات دئے ہیں ۔معصوم بچپن پر بستے کا بوجھ نہ پڑے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔اور نہ ہی اس کے جسم اور ذہن پر اثر کی پریشانی ۔سی بی ایس ای نے بھی کچھ سال پہلے ریٹائرڈ ٹیچروں اور والدین کو سجھاﺅ دے کر طلباءکے چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر پڑھانے کی صلاح دی تھی تاکہ بچے کو ہر دن ساری کتابیں نہ لانی پڑے اس لئے ہر بچے کا الگ کلنڈر بنانا تھا ۔دوسری کلاس تک ہوم ورک نہ دینے کی بھی بات کی تھی بد قسمتی شاید یہ ہے کہ ساری باتیں تب تجویز تک تھیں اور ہم تب تک کچھ نہیں مانتے جب تک ہمیں ہدایات کی حد میں نہ باندھا جائے ۔اسکول چاہے سرکاری ہو یا پرائیوٹ حقیقت یہ رہی ہے جس اسکول کا بستہ جتا زیادہ بھاری ہوتا ہے اسے اتنا ہی اچھا اسکول مانا جاتا ہے۔جسمانی پریشانی کی بھی وارنگ دے چکے ہیں کہ بھاری بستہ بچوں کی ہڈیوں میں دقت پیدا کرتا ہے اور بھاری ہونے پر وہ سنگین بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ماہر تعلیم بتاتے ہیں کہ چار سے بارہ سال تک کی عمر کے بچے کی جسمانی نشو نما بڑھنے کی ہوتی ہے اس لئے اس دوران پڑھائی کے لئے بستے کا زیادہ بوجھ نہ ڈالیں بلکہ سارا زور بچوں کے پھلنے پھولنے پر دینا چاہئیے ہم سرکار کے اس ہدایت کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مرکزی سرکار کی بچوں کے بستوں پر جاری گائڈ لائنس پر جلد سے جلد عمل درآمد کیا جائے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!