ایودھیا کی اصل تاریخ
ایودھیا کی اہمیت اس بات کی علامت ہے کہ جب بھی قدیم بھارت کے تیرتھوں کا تذکرہ ہوتا ہے تب اس میں سب سے پہلے ایودھیا کا نام ہی آتا ہے میں نے بی بی سی میں پروفیسر ہرے بھاﺅ چترویدی سابق ہیڈ تاریخ الہٰ آباد یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مضمون پڑھا پروفیسر چترویدی نے لکھا ہے کہ ایودھیا اور نپر (جھوسی )کی تاریخ کا عروض برہما جی کے مانس پتر منو سے ہی تعلق ہے جیسے پرتسٹھا نپر اور یہاںکے چندر ونشی حکمرانی کا قیام منو کے پتر ایل سے وابسطہ ہے جسے شیو کے جاپ نے ایلا بنا دیا تھا اسی طرح ایودھیا اور اس کا شوریہ ونس منو کے پتر سے آغاز ہوا ۔ہندوستانی قدیم گرنتھوں کے مطابق ایودھیا کا وجود قبل عیسیٰ مسیح 22سو کے آس پاس مانا جاتا ہے اس ونش میں راجا رام چندرجی کے والد دشرتھ 63ویں حکمراں ہیں ایودھیا کے مہاتمبھ کے بارے میں یہ اور واضح کرنا صحیح ہوگا کہ جین روایت کے مطابق بھی 24تیرتھ کاروں میں سے 22اکھوادو ونش کے تھے ان 24تیرتھ کاروں میں سے بھی سب سے اول تیرتھ کار آدتیہ ناتھ تریمے دیو جی (کے ساتھ)چا ر دیگر تیرتھ کاروں کا جنم استھان بھی ایودھیا ہی ہے۔بہت مانیہ تاﺅں کے مطابق بدھ دیو نے ایودھیا یا ساکیت میں سولہ برس تک قیام کیا تھا ۔میں ہندو دھرم اور اس کے حریف فرقوں جیسے اور بدھوں کو بھی پوتر دھارمک استھان تھا ۔سرسٹی کے آغاز سے تیرتا یوگن رام چندر جی سے لے کر قدیم دور مہا بھارت اور اس کے بہت بعد تک ہمیں ایوھیا کے سوریہ ونشی اکوواکوئں کا تذکرہ ملتا ہے ۔اس ونش کا بھرم ناتھ ،ابھنیو کے ہاتھوں مہابھارت کے یدھ میں مارا گیا تھا ۔پھر لبن بستی بسائی اس کا آزادانہ تذکرہ اگلے 8سو برسوں تک ملتا ہے ۔پھر یہ نگر مگد کے مورچوں سے لے کر انپتوں اور قنوج کے حکمرانوں کے ما تحت رہا ۔آخر میں یہ محمود غزنوئی کے بھانجے سید ستار نے ترک حکومت قائم کی وہ 1033قبل عیسوئی میں مارا گیا تھا ۔اس کے بعد تیمور،اس کے بعد جونپور میں ایکوں کی ریاست قائم ہوئی تو ایودھیا راکیوں کے ماتحت ہوگیا ۔خاص طور سے راک شاسک محمود شاہ کے عہد میں 1440عیسوئی میں 1526عیسوئی میں بابر نے مغل حکومت قائم کی اور اس کے سینا پتی نے 1528میں یہاں حملہ کر کے مسجد بنوائی تھی جو 1992میں مندر مسجد تنازع کے چلتے رام جنم بھومی آندولن میں ڈھہ گئی۔تاریخ رام جنم بھومی معاملے میں عزت معآب عدالت کے فیصلے میں بھی سب سے زیادہ بے چین ہے ایودھیا کے بنیادی باشندے ہونے کے ناطے فخر کے ساتھ اپنے نام سے پہلے سدد اود واسی لکھتے ہیں ۔یہ ہے مختصر میں ایودھیا کی تاریخ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں