84کا دنگا دیش کے لئے سیاہ باب
1984میںمشرقی دہلی کے ترلوک پوری علاقہ میں ہوئے دنگوں میں 95سکھوں کی لاشیں ملیں تھیں اس معاملے میں 88لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے ۔دہلی ہائی کورٹ نے 88لوگوں کی سزا برقرار رکھی تھی ۔ہائی کورٹ نے قصورواروں کی 22سال پرانی اپیل کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں نچلی عدالت کے ذریعہ دی گئی سزا پانچ پانچ سال کی قید صحیح ہے ۔بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی قصوروار پر قتل کی دفعات 302میں ایف آئی درج نہیں ہوئی ۔آخر کار پولس انتظامیہ ہمیں یہ تو بتا دے کہ ان 95سکھوں کے قتل کس نے کئے تھے؟دنگے کس نے بھڑکائے،کرفیو کس نے توڑا؟ان لوگوں کو سزا مل گئی لیکن ہمارے پتا ،بھائی بہن دادا دادی کو کس نے مارا ......کون ہیں وہ لوگ جنہیں بچایا جا رہا ہے؟یہ کہنا تھا متاثرہ کنبوں کے افراد کا ۔ہائی کورٹ نے 88قصورواروں کی اپیل پر 22سال بعد فیصلہ سنایا اور سبھی کی سزا کو بر قرار رکھا اور سبھی قصور واروں کو سرینڈر کرنے کو کہا وکیل صفائی کی باتوں میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جو الزام لگائے گئے وہ جرم ہوا تھا ۔متاثرین اب تک انصاف کا انتظار کر رہے ہیں ۔کیا یہی ہمارا موثر عدلیہ نظام ہے ؟کیا ہماری انصاف مشینری اتنے بڑے معاملوں کی سماعت کے لئے اہل ہے؟کیا ہمیں عدلیہ عمل کے اس کڑوے تجربے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے ؟یہ تلخ تبصرہ ہائی کورٹ نے 70 قصورواروں کی اپیل خارج کرتے ہوئے کیا ہے ۔جسٹس آر کے گابا نے فیصلہ میں کہا کہ اصل میں یہ معاملہ بے حد تکلیف دہ اشو ہے کہ رسوخ دار لوگوں کے ذریعہ کرائے گئے دنگوں کی سماعت کے لئے عدلیہ عمل میں آج تک کسی نے سنجیدگی سے ضرورت نہیں سمجھی جس طریقہ سے مقدمہ کی سماعت ہوئی ہے وہ دیش کی عدلیہ تاریخ میں ایک ایسے مقدمے کے طور پر یا د کیا جائے گا ۔جسٹس آر کے گابا نے 79صفحات کے فیصلہ میں کہا کہ معاملہ سماعت اور اپیل کے دوران جس طرح آج تک لٹک رہا ہے اس سے صاف ہے کہ قانون کی کارروائی دھیمی اور بے اثر اور بے حد غیر تسلی بخش رہی ترلوک پوری کے متاثر خاندان والوں نے کہا کہ ہم تو امید لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں پھانسی کی سزا ملے گی لیکن پولس کی لاچاری اور لاپرواہی کے چلتے ہمیں انصاف نہیں مل پایا ہمارے سامنے خاندان والوں کو مارا گیا گواہی ہوئی قصوروار پائے گئے لیکن ایف آئی آر میں صرف دنگا کرفیو کی دفعات شامل کی گئیں ۔آخر کار وہ کون لوگ تھے جنہوں نے 98سکھوں کا قتل کیا ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں