پورے مغربی یوپی میں فساد کرانے کی تھی سازش

بلند شہر میں ہوئے تشدد میں انسپکٹر سمیت ہوئے دو افراد کی موت کے بعد وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سخت رخ اپناتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات دئے ہیں ۔ا س کے بعد پولس نے بھاجپا،بجرنگ دل،اور وشو ہندو پریشد کے عہدیداروں کے گھروں پر دبش دیتے ہوئے الزام میں چار نامزد ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ملزم مانے جا رہے بجرنگ دل کے ضلع کنوئنر یوگیش راج نے واردات کے 48گھنٹے کے بعد ایک ویڈیو جاری کر خود کو بے قصور بتایا ہے۔بلند شہر تشدد کو لے کر اب مانا جا رہا ہے اگر یہ تشدد ایک گھنٹے بعد ہوتا تو پورے مغربی اترپردیش میں مظفر نگر دنگے جیسے حالات ہو سکتے تھے ۔تشدد کی چنگاری ایک بڑی آگ بن کر بھڑک سکتی تھی ۔روزنامہ ہندی ہندوستان کے نامہ نگار نشانت کوشک کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کو بھیجی گئی خفیہ رپورٹ میں بھی یہی اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔پردیش سے لے کر دیش تک کی سیاست میں زلزلہ لا سکتی تھی ۔بلند شہر کے سیانہ کا واقعہ اچانک ہے یا پھر سازش؟اس کو لے کر ایڈیشنل ڈائیرکٹر جنرل انٹلی جینس اور ایس آئی ٹی جانچ میں لگی ہوئی ہے۔لیکن واردات کی جگہ سے جو ثبوت ملے ہیں پہلی نظر میں دیکھ کر حکام بھی ایک بڑی سازش کا اندیشہ جتا رہے ہیں ۔افسر اس پورے واقعہ کو اتفاقی ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔انہیں اس میں سازش کی بو آرہی ہے ۔سئنیر افسران کی ذرائع کی مانے تو وہاں پر سارے حالات ایسے تھے کہ لوگوں کے جذبات بھڑک جائیں اور بلبہ ہو سکے ۔اس کےلئے ہی گﺅ کے باقیات کو وہاں پر ایسے پھینکا گیا تھا کہ وہ دور سے دکھائی دئیں ۔وہاں اگست سے ہی یہاں کے لوگ گﺅ کاٹنے کی شکایتیں مسلسل حکام اور عوام کے چنے ہوئے نمائندوں سے کر رہے تھے ۔ان میں گﺅ ونش کو لے کر غصہ بھی تھا ۔اور گﺅ ونش کے باقیات کو بڑی تعداد میں دیکھ کر ہی لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور انہوںنے سڑک پر جام لگا دیا ۔اگر ایہ جام آتش زنی کے واقعہ ایک گھنٹہ بعد ہوتا تو پھر اسے سنبھالنا آسان نہیں ہوتا ۔اس دوران وہاں سے اجتماع سے لوٹ رہے دوسرے فرقہ کے لوگوں کی گاڑیاں بڑی تعداد میں ہوتیں اور دونوں کے درمیان ٹکراﺅ بلند شہر سے ہی ہوکر پورے مغربی اترپردیش میں پھیلنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا ۔کیونکہ اس اجتماع میں بڑی تعداد میں مغربی اترپردیش کے لوگ بھی شامل ہوئے تھے۔اس خطرناک سازش کرنے والوں کی اسکیم کو اس سے بھی دھکہ لگا کہ پولس انسپکٹر ثبوت کمار سنگھ کو گولی لگنے کے بعد پولس بھی پوری طرح چوکس ہوگئی اور اس کی مستعدی سے دنگا نہیں بھڑکایا جا سکا ۔واقف کار مانتے ہیں کہ انسپکٹر اور نوجوان کی موت 32بور کی پستول سے گولی لگنے سے ہوئی یہ ہتھیار کسی کا لائسنس یافتہ ہے یا بغیر لائسنس کا تھا اس کا ابھی پتہ نہیں چل سکا ۔اس پورے واقعہ میں یہ بات بھی پتہ کرنے کی ہے کہ انسپکٹر ثبوت کمار سنگھ کے پاس بھی نجی لائسنس والی ریوالور تھی ۔یہ ہتھیار واردات کے بعد سے ہی غائب ہے ۔معاملے میں کس ہتھیار سے گولی چلی اس کا پتہ تبھی چلے گا جب وہ مل جائے گا۔اور اس کی فورنسک جانچ ہوگی ۔واقف کاروںنے بتایا کہ اگر کسی کے پاس اپنا نجی لائسنس یافتہ ہتھیار ہے تو وہ ڈیوٹی کے وقت اپنے پاس رکھ سکتا ہے ۔چونکہ یہ بات شروع میں اُٹھی تھی کہ انسپکٹر کے پاس نجی ریوالور تھا جو واردات کے بعد سے ہی غائب ہے اس پورے معاملے کی جانچ انٹلی جینس اور ایس آئی ٹی کر رہی ہے ۔امید ہے کہ وہ پوری سازش کا پردہ فاش کریں گی۔دیش کو آخر پتہ تو چلے کہ کس نے اور کیوں یہ خطرناک سازش بنائی تھی ؟مظفر نگر کے بعد بلند شہر کی یہ واردات انتہائی سنگین ہے اور پورے مغربی اترپردیش کو دنگے کی آگ میں جھونکنے کی سازش تھی ۔لیکن شکر ہے یہ ٹل گئی ؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!