شکتی کانت داس کے سر پر کانٹوں کا تاج

ٹکراﺅ اور تمام طرح کے تنازعات کے درمیان ارجت پٹیل کے استعفی کے فورا بعد مقرر کئے گئے ریزرو بینک آف انڈیا کے نئے گورنر شکتی کانت داس نے کانٹوں بھرا تاج پہنا ہے ۔رگھو رام راجن اور ارجت پٹیل کی شکل میں وہ بھاری اشخاص کے بعد سرکار نے ایک ایسے شخص کو گورنر کے عہدے کے لئے چنا ہے ،جو معاشی امور کے سیکریٹری و مالیاتی کمیشن کے ممبر رہ چکے ہیں اور سرکار کے کام کاج سے بخوبی واقف ہیں شکتی کانت داس نے نوٹ بندی کے وقت ریزرو بینک اور سرکار کے درمیان سالسی کا کردار نبھایا تھا تب میڈیا سے مخاطب ہونے کا ذمہ انہیں کا تھا اس کے بعد جی ایس ٹی کا مسودہ تیار کرنے سے لے کر اس پر ریاستوں کی رضامندی حاصل کرنے اور جی ایس ٹی سے وابسطہ حصاص ترین وسائل میں بھی ان کی سرگرمی تھی اس کا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی لاگو کرنے میں ان کی بھی رضا مندی تھی ؟اگر تھی تو ان کے نتائج تو اچھے نہیں نکلے۔آج دیش میں ہزاروں کاروباری ،نوجوان بے روزگار ہیں دھندے چوپٹ ہو گئے ہیں اور لاکھوں لوگ روٹی تک کے لئے محتاج ہیں پھر یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مالی تنگی سے گذر رہی مرکزی سرکار ریزرو بینک سے مالی مدد چاہتی ہے ارجت پٹیل کے استعفی کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ مودی سرکار کی ہر مانگ کو منظور کرنے کو تیار نہیں تھے ۔شکتی کانت داس کے سامنے سب سے پہلا کام ریزرو بینک کی مختاری کو بچاتے ہوئے اس کی وزارت مالیات کے درمیان چلے آرہے ٹکراﺅ کو کم کرنا ہوگا اسی کے چلتے ارجت پٹیل نے اپنی میعاد پوری ہونے نو مہینے پہلے ہی استعفی دے دیا ہے ۔اور اسی کے سبب سابق گورنر رگھو رام راجن کی معیاد نہیں بڑھائی گئی یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ شکتی کانت داس رگھو رام راجن کی طرح سے پرفیشنل بینکر یا ماہر اقتصادیات نہیں ہیں وہ 1980بیچ کے آئی اے ایس افسر ہیں اور اس ناتے وہ دیش کے مختلف اداروں میں تال میل بٹھانے اور مالی معاملوں کو صلاحیت کے ساتھ چلانے کا کام کر چکے ہیں جب بھی ارجت پٹیل سے وزارت مالیہ کے رشتوں میں ٹکراﺅ آیا وہ ایک سنکٹ موچک بن کر کھڑے رہے چاہے یوی پی اے سرکار کے وزیر خزانہ پی چتمبرم کے عہد میں آئی ہو ۔2008کی مندی کا سوال ہو یا موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی 2016میں نوٹ بندی کا سوال ہو ہر مشکل میں وہ سرکار کے ساتھ کھڑے رہے ۔شکتی کانت داس نے ایسے نازک دور میں عہدہ سنبھالا ہے جب کچھ ہی مہینوں بعد 2019کے لوک سبھا چناﺅ ہونے والے ہیں ۔امید کی جاتی ہے کہ وہ سب سے پہلے ریزرو بینک کی مختاری بر قرار رکھیں گے اور دیش کے مفاد کو بالا تر رکھیں گے ۔مودی سرکار کے ربر اسٹیمپ نہیں بنیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائیں گے جو دیش کے مفاد میں نہ ہو ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟