بھارت کو ہندو راشٹرگھوشت کرنا چاہیے تھا:جسٹس سین

میگھالیہ ہائی کورٹ نے قومی شہریت رجسٹر (این آر سی)سے متعلق ایک فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کی تاریخ ،تقسیم اور اس دوران ہندوﺅں و سکھوں وغیرہ پر ہوئے مضامین کا حوالہ دیا عدالت نے کہا کہ پاکستان میں خود کو اسلامی ملک اعلان کیا ہے ۔جسٹس ایس آر سین نے آگے کہا کہ وہیں بھارت کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی ۔اسے بھی ہندو راسٹر گھوشت ہونا چاہیے تھا ۔لیکن وہ سیکولر بنا رہا ۔کسی کو بھارت کو دوسرا اسلامی ملک بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ،ورنہ وہ دن دنیا کے لئے قیامت خیز ہوگا ۔انہیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے ضروری قدم اُٹھائے گی اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ملکی مفاد کودھیان میں رکھتے ہوئے پورا تعاون دیں گی عدالت نے مرکزی حکومت سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ قانون بنائے جس میں پاکستان ،بنگلہ دیش ،افغانستان سے آنے والے ہندو ،سکھ ،جین،بدوھ، پارسی ، عیسائی،کھاسی،وغیرہ فرقہ کو بغیر کسی سوال و دستاویز کے بھارت کی شہریت دی جائے ان کے لئے کٹ آف ڈیٹ نہ ہو ۔یہی وصول بیرونی ملک سے آنے والے ہندوستانی نژاد ہندوﺅں اور سکھوں کے لئے اپنایا جائے حالانکہ عدالت نے کہا کہ بھارت میں پیڑھیوں سے رہ رہے اور وہاں کے قانون کی تعمیل کر رہے مسلم بھائی بہنوں کے خلاف نہیں ہے انہیں بھی پر امن طریقہ سے رہنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔جسٹس ایس آر سین نے استغاثہ رانا کے مقامی رہایشی سرٹیفکٹ سے متعلق عرضی کا نپٹارا کرتے ہوئے یہ ریماکس دئے اس دوران کورٹ نے آسام این آر سی کارروائی کو بھی الزام پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت سے غیر ملکی ہندوستانی بن گئے ہیں اور بنیادی ہندوستانی ہو گئے ہیں جو تکلیف دہ ہے ۔عدالت نے کہا کہ سرکار سبھی شہریوں کے لئے یکساں قانون بنائے اور اس کی تعمیل پر سبھی پابند ہوں جو بھی ہندوستانی قانون اور آئین کی مخالفت کرتا ہے اسے دیش کا شہری نہیں مانا جا سکتا ۔کورٹ نے فیصلے کی کواپی وزیر اعظم ،وزیر داخلہ،وزیر قانون اور گورنر کوبھیجنے کا حکم دیا ہے ۔میگھالیہ کے جسٹس سین کی بھارت کو ہندو راسٹر بنانے سے متعلق رائے نے سیاسی کھلبلی مچا دی ہے ۔اپنے متنازع تبصرے کے لئے موضوع بحث رہنے والے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے عدالت کی حمایت کی ہے ۔دوسری طرف نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ اور آل انڈیا مسلم اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے اسے مسترد کر دیا ہے ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق گری راج سنگھ نے کہا کہ جج کے تبصرے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے انہوںنے کہا کہ کئی لوگ اس بارے میں مانگ اُٹھاتے رہے ہیں جنا نے مذہب کی بنیاد پر بٹوارہ کیا تھا یقینی طور پر لوگ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے رہے ہیں۔وہیں فاروق عداللہ نے کہا کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اپنی پسند کی باتیں کہہ سکتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ایم پی اسدالدین اویسی نے اسے نفرت پھیلانے کی کوشش قرار دیا ہے ۔انہوںنے جج کی رائے زنی پر کہا کہ بھارت اسلامی ملک نہیں بنے گا ۔
(انل نریندر)
سجن کیس کے دوررس نتائج ہوں گے !
کانگریس کے سئنیر لیڈر سجن کمار کو عمر قید کی سزا ملنے کے بعد بھی ان کی مشکلیں کم نہیں ہوئیں ہیں انہیں بے شک نچلی عدالتوں سے راحت ملتی رہی ہے اور پہلے معاملے میں انہیں کسی مقدمے میں ہائی کورٹ سے سزا ملی ہے لیکن ابھی انہیں کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ایک دوسرے معاملے میں بھی چشم دید گواہ نے عدالت کے سامنے ان کی پہچان کی تھی اور اب اس معاملے میں بھی جلد فیصلہ آدسکتا ہے ۔سجن کمار پر قریب آدھا درجن معاملے چل رہے ہیں ۔سجن سے پہلے کانگریس کے ہی سورگیہ سرکردہ لیڈر ایچ کے ایل بھگت بھی ایک گواہ کے بیان کے بعد جیل بھیجے گئے تھے لیکن ان کے دیہانت ہونے کے سبب مقدمے کو بند کرنا پڑا ۔نو مبر 84دنگوں کے بعد سے ہی سابق ایم پی سجن کمار ،جگدیش ٹائٹلر اور سورگیہ بھگت کا نام ملزمان کے طور پر خاص طور سے لیا جا تا رہا ہے ۔سجن کمار کا رتبہ اتنا بڑا رہا ہے کہ جب سی بی آئی انہیں گرفتار کرنے مادی پور میں ان کے گھر گئی تھی تو جم کر ہنگامہ ہوا تھا اس کے بعد سے کبھی بھی سی بی آئی یا پولیس انہیں گرفتار کرنے کی ہمت نہ کر پائی ان کے خلاف دہلی چھاﺅنی علاقہ کے علاوہ سلطانپوری ،منگولپوری،نانگلوئی وغیرہ علاقوں میں ہوئے دنگوں کے معاملے زیر سماعت ہیں امکان جتایا جا رہا ہے اگلے برس یعنی 2019میں سبھی مقدمات کے فیصلے آجائیں گے جس طرح ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلہ کو پلٹتے ہوئے سجن کمار کو سزا سنائی ہے اس کا دیگر معاملوں میں بھی اثر پڑے گا ابھی تک سجن کمار کو شبہ کا فائدہ ملتا رہا ہے ۔لیکن آگے اس کا امکان کم ہے حالانکہ عدالت کا فیصلہ گواہوں اور دستاویزات کی بنیاد پر کرنا ہوتا ہے لیکن اب سجن و دیگر ملزمان کی مشکلیں بڑھنے والی ہیں۔ویسے یہ بتا دیں کہ 84کے دنگوں کے معاملے میں پہلی بار مجرمانہ سازش کے تحت ملزمان کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے اور سزا سنائی گئی ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ اب تک نہ تو دہلی پولس نے اور نہ ہی سی بی آئی نے کسی بھی ملزم پردنگوں کو انجام دینے کے لئے مجرمانہ سازش کا الزام لگایا تھا معاملے میں سی بی آئی کی جانب سے پیروی کر رہے مخصوص وکیل صفائی اور سینئر وکیل آر ایس چیما نے بتایا کہ آئی پی سی کی دفعہ 120Bکا الزام لگانا ہی سجن کمار کی سزا یقینی کرنے میں اہم رول رہا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے یہ پہلا معاملہ ہے جن دنگوں کی سازش کو ریموٹ کنٹرول کرنے والوں کو سزا ہوئی ہے ۔یہاں تک کہ سی بی آئی نے بھی چارج شیٹ میں قصورواروں کے خلاف مجرمانہ سازش کا الزام نہیں لگایا ہے چیما نے بتایا کہ پولس اور سی بی آئی نے تو سجن و دیگر پر صرف دنگا کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا تھا ۔ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے دوررس نتائج ہوں گے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!