موبائل میسجنگ بنا سیاسی کمپین کا اہم ذریعہ

مائکرو سافٹ کے فاﺅنڈر بلگیٹس نے اپنی کامیابی کے بعد آسان الفاظ میں بیان کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ کامیابی کا سیدھا سیدھا فارمولہ ہے اچھی کمنیوکیشن اسکل ۔گیٹس کا کہنا کہ اگر اس سے لکھنے اور بولنے میں صحیح ہے تو وہ کسی بھی پیشے میں کامیاب ہونے کی قابلیت رکھتا ہے موبائل میسجنگ پچھلے کچھ عرصے سے سیاسی کمپین کا اہم ذریعہ بنتا جا رہا ہے ۔امریکہ کے کیلیفورنیا ریاست کے لیفٹ نینٹ گورنر عہدہ کا چناﺅ لڑئیں ایلینا کولکس نے سین فرینسکو میں اپنے گھر پر ہر سیکنڈ ایک ووٹر سے رابطہ کرتی ہیں ۔ٹیکس میسج کے لوگوں تک پہنچانے کا نیا طریقہ بن گیا ہے امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کی زیادہ تر ریاستوں میں قابض ہونے کے باوجود پارٹی کمیٹی نے اس برس نو کروڑ چالیس لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں کے موبائل نمبر خریدے ہیں سیاسی مسودے کی اپیل نایاب ہے ووٹر کے کسی کام میں دخل دئے بنا اس سے رابطہ قائم ہو سکتا ہے ۔شخصی رابطہ کے دوران کئی لوگوں سے ملاقات نہیں ہو پاتی لیکن ٹیکسٹ میسج سے تیزی سے دور دراز علاقوں میں بیٹھے لوگوں سے رابطے قائم ہو جاتے ہیں کئی حکمت عملی سازوں کا خیال ہے کہ جہاں ہم نے ای میل ان باکس اور سوشل میڈیا پر میسج کی بھرمار تو اپنالیا ہے وہیں ٹیکسٹ میسج شخصی اور مدعو پر مبنی سوال کے ذریعہ ہے ۔مارکیٹنگ فرم موبائل اسکوائب کے مطابق 90فیصد میسج حاصل ہونے کے تین منٹ کے اندر پڑھ لئے جاتے ہیں حالانکہ کئی لوگ سیاسی مہموں میں نظر انداز بھی ہو جاتے ہیں امریکہ کے کئی رپبلیکن سیاست داں کی مہم میں مدد کر رہی فرم اوپینیین سی سیم کے فاﺅنڈر گیرٹ لوسنگ کا کہنا ہے کہ دیگر مقامات پر شور شرابا جھیلنے کے بجائے لوگ ٹیکسٹ میسج پسند کرتے ہیں اور ان کا پلیٹ فارم 17مہاوروں کی فہرست استعمال کرتا ہے اور منفی جواب والے لوگ خود باہر ہو جاتے ہیں ۔سرمایہ لگانے والی فرموں نے اے سیل جیسے پلیٹ فارم میں اربوں روپئے لگائے ہیں ۔ان میسجنگ کی بڑھتی مقبولیت کا ثبوت ہے لیکن کئی لوگ مانتے ہیں کہ کنجومر کی شکایتوں کے سبب سیاسی ٹیکسٹنگ کی شروعات سنہرے دور میں تبدیل ہو سکتی ہے حکومت ہند نے خبر دار کیا ہے کہ واٹس ایپ میں کئی بڑھکاﺅ سندیش بھی بھیجے جا رہے ہیں ایسے بھڑکاﺅ سندیش دینے والوں اور بھیجنے والوں کی شخصی پہچان اور ان کے مقام کے بارے میں جانکاری مانگی جا رہی ہے ۔واٹس ایپ کا بے جا استعمال روکنے کے لئے بھارت سرکار اور کمپنی دونوں پریشان ہیں ۔خیر کسی بھی ایسی سہولت کے بے جا استعمال کرنے والے ہوتے ہیں لیکن اس سے یہ سہولت غلط نہیں ہو جاتی ۔آنے والے دنوں میں خاص کر انتخابات میں یہ واٹس ایپ کمپین کا بڑا ذریعہ بن جائے گا ۔اس کے آثار آج ہی سے نظر آنے لگے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!