لوک سبھا چناﺅ دیکھ گہلوت اورکملناتھ کے سر پر تاج

کانگریس صدر راہل گاندھی نے دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اوزرائے اعلیٰ کے نام پر مہر لگائی ہے بیشک ان کے انتخاب میں کچھ وقت لگا لیکن راہل گاندھی بطور کانگریس صدر اب تک کا سب سے بڑا فیصلہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں تو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کو لیکر تجربے کار لیڈر کملناتھ کے نام کا اعلان جمعرات کی رات ہی کر دیا گیا تھا راجستھان میں دو بار وزیر اعلیٰ رہے اشوک گہلوت کا انتخاب کانگریس کے مشن 2019کو دیکھ کر کیا گیا ہے ۔اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ میں کون چنا جائے گا یہ سسپینس 2دن بنا رہا آخر میں راہل کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے اس کے پیچھے مشن 2019کی چھاپ صاف نظر آرہی ہے اور راہل گاندھی کے اس فیصلے کا اثر چار ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا چناﺅ میں دکھائی دے گا یہی وجہ رہی کہ راہل گاندھی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے سبھی دعوے دار ریاستوں سے وابسطہ لیڈروں اور ورکروں سے بات چیت کر نئے نیتا کا انتخاب کیا اسکولی دنوں میں جادو گری کر کے دوستوں کو چونکانے والے گہلوت کو کملناتھ کی طرح سیاست کا جادو گر کہا جاتا ہے جو کانگریس کو مشکل سے مشکل حالات سے نکال لاتے ہیں دونوں ہی نیتا اشوک گہلوت اور کمل ناتھ نہرو گاندھی کے خاندان کے قریبی رہے ہیں ۔کملناتھ کی بات کریں تو وہ گاندھی پریوار کی تین پیڑھیوں سے کام کر چکے ہیں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی تو کملناتھ کو اپنا تیسرا بیٹا مانتی تھیں تو ان کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کے وہ اسکولی دوست تھے وہ راہل گاندھی کے بھی قریبی مانے جاتے ہیں دون اسکول میں پڑھائی کے دوران سنجے گاندھی کے دوست بنے تھے اور وہیں سے سیاست میں داخل ہونے کی بنیاد تیار ہوئی ایک بار اندرا گاندھی چھندواڑا کے لئے چناﺅ کمپین کرنے آئیں تھیں اندرا نے تب ووٹروں سے چناﺅی ریلی میں کہا تھا کہ کملناتھ ان کے تیسرے بیٹے ہیں ۔کملناتھ چھندواڑا سے مسلسل نو بار لوک سبھا کے ایم پی رہ چکے ہیں سنجے گاندھی اور کملناتھ کی دوستی اسکول کے زمانے سے ہی مشہور تھی دونوں کا سپنا تھا کہ دیش میں چھوٹی کار کی تیاری میں وسیع پیمانے پر پروڈکشن کرنا تھا اوریہیں سے ماروتی کا جنم ہوا تھا ۔امرجنسی کے بعد کملناتھ کو گرفتار کیا گیا تب وہ سنجے گاندھی کے لئے جج سے بدتمیزی کر بیٹھے تھے اس کے بعد انہیں تہاڑ جیل جانا پڑا لیکن اس سے اندرا گاندھی کی نظروں میں ان کا قد بڑھ گیا تھا ۔کملناتھ اور گہلوت کو کمان دینے کے پیچھے تجربے کے ساتھ سیٹوں کا حساب کتاب بھی لگانا مانا جا رہا ہے ۔دونوں ریاستوں میں کانگریس کو اکثریت کے لئے دوسری پارٹیوں آزاد ممبران پر انحصار کو دیکھتے ہوئے انتظامی تجربے کو زیادہ فائدہ مند مانا گیا ۔ہم کملناتھ اور شری اشوک گہلوت کو وزیر اعلیٰ بننے پر بدھائی دیتے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!