سشما سوراج جی ہمیں یہاں سے نکالو
ہاتھ جو ڑ کے ونتی ہے ماجی سانو اے تھو کڈو لے آﺅ ۔نرک تو بی ماڈی زندگی کر انہیں آ اتھے ۔سڈی کوئی سوگندھا اتھے ۔کمپنی نو کہدآں تاں سانو دوجی کمپنی ویچ چلے جاں لئی کہہ دیں دے ۔جنہاں دے تے انہاں وی ماڑے حال نے ۔کوئی سنن والا نہیں ۔یہ بات گورایاں کے 29سال کے ایک شخص اوتا ر سنگھ نے روزنامہ ہندی بھاسکر کے رپوٹر سے فون پر کہی اوتار سنگھ دو سال سے سعودی عرب کی راجدھانی ریاض میں پھنسا ہوا ہے ۔ہوشیار پور کے ایک شخص ششی نے بتایا کہ اگر سفارتخانے جاتے ہیں تو وہاں کہا جاتا ہے کمپنی ہاتھ کھڑے کرتی ہے تو آپ کو انڈیا بھیجا جا سکتا ہے ۔سعودی عرب کے شہر ریاض ،جمبو ،کسین کے شہروں میں پھنسے پنجاب کے لڑکوں کی اتنی بد حالی ہے کہ سن کر بھی دکھ ہوتا ہے اوتار سنگھ بتاتا ہے کہ (انہیں کے الفاظ میں )لیبر کوڈ کو ہی لے لیں لوکل پولس تک سب آگے پیش ہوئے وے دیکھ لیاں لیکن او وی سڈی نہیں سندے ۔ہن ناں سڈے کو کوئی پاسپورٹ ہے تے نا ہی اقاما (ایک طرح کا پاس یا ویزا)کوئی میڈیکل کارڈ وی سڈے کول نہیں ۔بہت برا حال ہے ۔ویزا لے کر کے اسی سے باہر جاتے ہیں تو پولس پکڑ لیںدی ہے دسیے ایک کمرے میں وچ اسیں پندرہ پندرہ بندے رہ رہاں پتہ نہیں کیڈے ویل سانو کونڈ چھڑکے لے جاویں اتکے داں پرن سمندری ہیں تیں وانی خراب ہنڈ کر کے کسی نو لکوا ہمکا ہے کسی دی کوئی بیماری لگی ہے ۔میڈیکل ختم ہنڈ کر کے اسی اپنا علاج ہی خود کروا سکدے ۔اسی سارے توہاڈے ہاتھ جوڑدیں آں کہ سڈی گل سشما سوراج جی کول پہنچاواں ۔بس اواں تو علاوہ ہور کوئی مہارا نہیں سڈے کول سعودی عرب میں سائپرس کی جیے اینڈ پی کنسٹرکشن کمپنی سے بھارت کے تین ہزار سے زیادہ شہری کام کر رہے تھے ۔ان میں سے تقریبا بارہ سو لڑکے پنجاب کے الگ الگ ضلعوں کے ہیں ۔اور ان میں سے پانچ سو سے چھ سو لڑکے جالندھر ،ہوشیار پور کے بلویندر نے بتایا کہ وہ 2008میں جالندھر کے ایک ایجنٹ کے ذریعہ دبئی جے اینڈ پی میں کام کرنے گیا تھا ۔2012میں کمپنی کے نئے پروجکٹ کے چلتے وہ سعودی عرب آگیا تھا تین سال تک کمپنی کی طر ف سے میڈیکل کارڈ اقاما (ویزا)اور سیلری ٹائم پر دی جا رہی تھی مگر ایک سال سے وہ کام کر رہے ہیں جس کے بدلے نہ تو سیلری دی جا رہی تھی نہ ہی میڈیکل کارڈ بنایا جا رہا ہے ۔ریاض میں پھنسے زیادہ تر لڑکوں کے پاس نہ تو پاسپورٹ ہے اور نہ ہی ویزا اگر بغیر اقاما کے باہر جاتے ہیں تو پولس پکڑ لیتی ہے کمپنی اقاما بنانے کے لئے 8ہزار ریال (1.50)لاکھ روپئے مانگتی ہے دوسری کمپنی میں تو بارہ گھنٹے کام کرواتے ہیں اور پانچ گھنٹے کے پیسے دیے جاتے ہیں پہلے سے کام کر رہی لیبر کو کئی مہینے سے تنخواہ بھی نہیں ملی ہے انہیں کیسے بچایا جا سکتا ہے ؟سرکار یا تو بھیجنے والے ایجنٹوں کو پکڑے یا پھر ان کمپنیوں کو مجبور کرئے کہ وہ ان پھنسے ہوئے لڑکوں کو بچائے ۔سشما جی کو انہیں بچانا ہوگا ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں