بسوں میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کا مسئلہ

بسوں میں دہلی کی طالبہ و طالبات کتنی محفوظ ہیں یہ سوال بار بار اٹھتا ہے۔ بسوں میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ عام بات ہوگئی ہے۔ روٹ نمبر 544 کی خوفناک کہانی سوشل میڈیا کے ذریعے سب کے سامنے آئی تو پولیس بھی حرکت میں آگئی۔ ایک طالبعلم کی بہن نے ٹوئٹرپر اس کی داستان سب کے سامنے رکھی ہے۔ کیسے کالج کے روٹ والی اس بس پر روز منچلے غنڈے کالج کے ٹائم پر سوار ہوجاتے ہیں اور لڑکیوں سے بدتمیزی کرتے ہیں۔ ایک بار تو طالبہ اتنی گھبرا گئی کہ وہ چلتی بس سے کود پڑی۔ نو بھارت ٹائمس نے جب اس بارے میں دہلی کے باقی علاقوں میں لڑکیوں سے بات کی تو روٹ نمبر 544 تو کیا ہر روٹ پر یہی کہانی ہے۔ طالبات نے بتایا کہ کیسے یہ غنڈے ان کا کالج تک جانا مشکل کردیتے ہیں۔ ایک ایم۔اے کی طالبہ نے بتایا کہ بس بالکل محفوظ نہیں ہے۔ پہلے تو بسیں بہت کم ہیں جس میں لڑکیوں کو بھیڑ میں پھنس پھنس کر جانا پڑتا ہے۔ جیسے پرانی دہلی سے بوانا بس نمبر 116 میں ہر وقت بھیڑ ہوتی ہے اور چھیڑ چھاڑ عام ہے۔ میں خودایک بار ڈی ٹی سی بس میں کھڑکی کی طرف اپنی بہن کے ساتھ بیٹھی تھی اور پیچھے کی سیٹ پربیٹھا ایک شخص اس کے بریسٹ کو چھونے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت میں سوچ بھی نہیں پا رہی تھی کہ ایسا بھی کوئی کرسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر سیفٹی نہیں دے پا رہے ہیں تو گرلز اسپیشل بسیں بہت ضروری ہیں کیونکہ بسوں میں اگر مارشل بیٹھا ہو تو وہ یہ ہی کہتا ہے کہ میڈم آپ آگے ہوجائیے۔ اب کیا کرسکتے ہیں؟ سیکنڈ ایئر دہلی یونیورسٹی کی طالبہ سواتی جیسوال بتاتی ہیں کہ آنند وہار سے میں اور میری دوست پریتی ہمیشہ 33 نمبر روٹ کی بس سے کالج جاتے تھے ایک بار بھیڑ زیادہ تھی اور کسی نے میری فرینڈ کے پیروں میں بہت عجیب طریقے سے ٹچ کیا ۔ وہ بس میں ہی زور سے چلائی ، میں نے فوراً اس آدمی کا ہاتھ پکڑا اور اسے ڈانٹنے لگی لیکن بھیڑ میں کسی نے آگے آکر ہم لوگوں کی مدد نہیں کی۔ کئی بار کسی کو دور کھڑے ہونے کے لئے کہتے ہیں تو وہ ہدایت دیتے ہیں میڈم زیادہ اکیلے چلنے کا شوق ہے تو اپنی کار سے آیا کرو۔ بھجن پورا سے میور وہار فیز 3 کے لئے بس نمبر 206 میں ایک اور لڑکی گل پناگ نے اخبار کی ٹیم کو بتایا کہ وہ جس بس میں جارہی تھی اس میں ایک 70 سال کے انکل میری پاس والی سیٹ پر بیٹھے تھے، کچھ دیر بعد وہ عجیب طریقے سے میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنے لگے ،میرے مخالفت کرنے پر اس نے ہاتھ تو ہٹا لیا لیکن کچھ دیر بعد اس نے اپنے فون سے فحاشی فلم دکھانے کی کوشش کی، جب میں نے بس میں اس پر چلانا شروع کیا تو وہ ایسے برتاؤ کرنے لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بس میں موجود کسی بھی شخص نے اس کی حرکت کے لئے احتجاج نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ چھیڑ چھاڑ روکی کیسے جائے؟ پولیس ہر بس میں ہو نہیں سکتی۔ ساتھی بس مسافر روکنے ٹوکنے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ آدمی الٹا ان پر حملہ نہ کردے؟ گرلز اسپیشل بسیں ہی چلانی ہوں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟