دیش میں پہلی بار روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیجا گیا

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی نے عہدہ سنبھالتے ہی دھماکہ کردیا۔ انہوں نے بھارت سے واپس میانمار بھیجے جارہے 7 روہنگیا مسلمانوں کو روکنے کی عرضی خارج کردی۔ چیف جسٹس گوگئی ، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایف جوزف کی بنچ نے آسام کے سلیر ضلع کے حراستی سینٹر میں 2012 سے رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کو جمعرات کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے ان کے واپس بھیجنے کے مرکزی سرکار کے فیصلے پر روک لگانے والی عرضی خارج کردی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ہی منی پور کے مورہے بارڈر پر 7 روہنگیاؤں کو میانمار کے حکام کو سونپ دیا گیا۔ انہیں کورٹ کی سماعت سے پہلے ہی آسام سے منی پور میں میانمار سرحد پر لایا گیا تھا۔ دیش میں پہلی با روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیجا گیا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران وکیل پرشانت بھوشن نے عدالت میں مرکز کی دلیلوں پر اعتراض جتایا۔وکیل بھوشن نے کہا کہ میانمار میں ساتوں روہنگیا کو اپنا شہری نہیں مانا۔ اس پر چیف جسٹس گوگئی نے کہا سرکار کے پاس درکار دستاویز ہیں۔ دونوں سرکاریں متفق ہیں۔ بھوشن نے کہا کہ اگر انہیں بھیجا گیا تو ان کا قتل ہوجائے گا۔ کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے جینے کے حق کی حفاظت کرے۔ تب چیف جسٹس نے ناراضگی جتائی۔ جینے کا حق کو لیکر ہمیں ذمہ داری پتہ ہے، ہم کسی کے ذریعے یہ یاد دلانے کو ضروری نہیں سمجھتے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر دیش میں رہ رہے قریب40 ہزار روہنگیا مسلمانوں پر پڑنے کے آثار ہیں۔ 16 ہزار روہنگیا اقوام متحدہ کی پناہ گزین فہرست میں شامل ہیں۔ 2017 میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر سرکار نے کورٹ کو بتایا تھا کہ بھارت میں موجود کچھ روہنگیا نیتا پاکستان کی آتنکی گروپوں کے رابطے میں ہیں۔ ان کی دراندازی سے دیش کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ان دراندازوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ جب میانمار کی حکومت نے ان ساتوں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری مان لیا ہے تب انہیں واپس بھیجنے کی کارروائی شروع کی گئی تھی۔ وہاں کی سرکار نے ان کو واپس بھیجنے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ان کا شناختی کارڈ اور ایک مہینے کا ویزا بھی دیا تھا۔ بھارت سرکار روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیشی دراندازوں دونوں کو ان کے اصل ملکوں میں واپس بھیجنا چاہتی ہے جبکہ کانگریس اور نیشنل کانگریس اور کچھ دیگر پارٹیاں ووٹ بینک کے لئے ان روہنگیا مسلمانوں کی حمایت کررہی ہیں۔ بھارت آبادی کے خطرناک موڑ سے گزر رہا ہے اور سرکار اپنے شہریوں کو بنیادی ضرورتیں مہیا کرانے میں لاچار ہورہی ہے۔ ایسے میں دوسرے دیشوں کے غیرقانونی طور پر رہ رہے شہریوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا ملک کے مفاد میں ووٹ بینک سے اٹھ کر اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ روہنگیاؤں کی واپسی قانون اور قومی مفاد میں ہے اور اس معاملہ میں بھدی سیاست کرنا تو ان پارٹیوں کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ملک کے مفاد میں۔ انہیں واپس جانا ہی ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟