رافیل سودے میں کچھ الجھے سوال

سپریم کورٹ اس مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کے لئے تیار ہوگئی ہے جس میں رافیل ڈیل کی تفصیلات عدالت میں رکھنے اور این ڈی اے حکومت اور یوپی اے حکومت کے دوران جنگی جہاز کا موازنہ اور تجزیہ پیش کرنے کی حمایت دینے کی مانگ کی گئی ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگئی کی رہنمائی والی بنچ نے کہا کہ اس معاملہ میں پہلے ہی سے التوا عرضیوں پر 10 اکتوبر کو سماعت ہونی ہے لہٰذا اس مفاد عامہ کی عرضی کو بھی اسی دن سنا جائے گا۔ فرانس سے 30 ہزار کروڑ کے رافیل سودے پر سیاسی تنازع کے درمیان داخل ایڈوکیٹ ونت ڈھانڈا نے مفاد عامہ کی عرضی میں کہا ہے کہ ہندوستانی کمپنی کو ٹھیکہ دئے جانے کے بارے میں بتایا جائے۔ اس سے پہلے ایچ ایل شرما نے عرضی داخل کرکے رافیل سودے میں تمام گڑبڑیوں کا الزام لگایا تھا۔ ایک لفظ ہے ’’جوابدہی‘‘ اسی کا ایک متبادل لفظ ’’جوابدہ‘‘ بھی ہے۔ آسان زبان میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے جواب دینے کا کام کس کا ہے؟ رافیل سودے اور اس میں انل امبانی کی نئی نویلی کمپنی کے رول کو لیکر بہت سارے سوال اٹھ رہے ہیں جس کے لئے سیدھے جوابدہ وزیر اعظم ہیں کیونکہ وہ پی ایم ہیں اور اس سودے پر انہوں نے دستخط کئے ہیں۔ اس سودے کو انجام تک پہنچانے میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر یا کیبنٹ کے کسی رول کا کوئی سراغ نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ سوال پی ایم مودی سے پوچھے جا رہے ہیں لیکن جواب ان کی ٹیم کے ممبر دے رہے ہیں۔ سوالوں کی شکل میں یا پھرفقرے کس کر۔ پی ایم نے مدھیہ پردیش میں راہل گاندھی کے الزامات کو غیر ملکی قرار دیا لیکن جواب تو دور رافیل لفظ پران کے منہ سے ایک جملہ تک نہیں نکلا۔ جتنا کیچڑ اچھلے گا اتنا ہی کمل کھلے گا یہ کہنے کی کوئی بنیاد یا ثبوت نہیں ہے کہ کوئی گھوٹالہ ہوا ہے یا کسی نے رشوت لی ہے لیکن یہ پورا معاملہ راجیو گاندھی کے عہد کے بوفورس کی طرح پرت در پرت کھل رہا ہے۔ بوفورس معاملہ میں بھی یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ وہ گھوٹالہ تھا یا راہل گاندھی کے پتا نے رشوت لی تھی۔چور اور خاندانی چور کے ہو ہلے کے بیچ نہ تو صحیح سوال سنائی دے رہے ہیں اور نہ ہی کوئی جواب مل رہا ہے۔ سوال بھارت کے قومی مفادات سلامتی وزیر اعظم کے دفتر کی ساکھ اور شفافیت سے جڑے ہیں۔ معاملہ کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت رتن اٹل بہاری واجپئی کی کیبنٹ کے دو وزرا اور ایک نامی وکیل نے اسے زبردست مجرمانہ بے ضابطگی بتاتے ہوئے کئی سوال پوچھے ہیں۔ ہوا میں یہ پانچ سوال تیر رہے ہیں انڈین ایئرفورس کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی کمپنی داسو ایوی ایشن سے 126 جنگی جہاز خریدے جانے تھے۔ 2012 میں منموہن سنگھ سرکار سے فرانسیسی کمپنی کی بات چل رہی تھی۔ 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔2015 میں داسو کے چیف ایٹک ٹوپیئے نے کہا تھا کہ 95 فیصد باتیں طے ہوگئی ہیں اور جلد ہی کام شروع ہوگا۔ سوال نمبر1 : وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 اپریل 2015 کو اپنے فرانس دورہ کے دوران 17 معاہدوں پر دستخط کئے جن میں ایک معاہدہ رافیل جنگی جہاز کی خرید کا بھی تھا۔ جنگی جہازوں کی تعداد 126 سے گھٹا کر اچانک 36 ہوگئی ، حکومت نے ابھی تک دیش یا پارلیمنٹ و میڈیا کو یہ نہیں بتایا کہ اتنی بڑی تبدیلی کب اور کیسے ہوئی؟ نمبر2 : 126 جنگی جیٹ خریدے جانے تھے بلکہ ان میں سے108 جہاز بھارت میں ٹکنالوجی ٹرانسفر معاہدہ کے تحت بنگلورو میں سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ میں بنائے جانے والے تھے لیکن یہ ارادہ ترک کردیا گیا۔ سرکاری سیکٹر کی کمپنی ایم اے ایل کے پاس جنگی جہاز بنانے کا اچھا خاصہ تجربہ ہے۔ ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے تحت وہاں پہلے بھی سینکڑوں جگوار اور سخوئی جہاز بنائے گئے ہیں۔ میک ان انڈیا میں ڈیفنس سیکٹر میں زور دینے کی بات کہی گئی تھی اور یہ اس سمت میں بہت بڑا قدم ہو سکتا تھا۔ لمبی خانہ پوری کرکے ایئرفورس کی ضرورتوں کا تجزیہ کرنے کے بعد طے کیا گیا تھا کہ 126 جنگی جہازوں کی ضرورت ہوگی۔ کیا بھارت کی عوام کو یہ نہیں بتایا جانا چاہئے کہ ایئرفورس کے جنگی جہازوں کی ضرورت کم کیسے ہوگئی اور ایم اے ایل کو یہ موقعہ کیوں نہیں دیا گیا؟ نمبر3: یہ ایک نیا سودا تھا کیونکہ جہازوں کی قیمت اور تعداد طے کی گئی تھی۔ ارون شوری، یشونت سنہا اور پرشانت بھوشن کا الزام ہے کہ وزیر اعظم نے قواعد کی تعمیل نہیں کی، سوال یہ ہے کہ اگر یہ نیا آرڈر تھا تو قواعد کے مطابق ٹنڈر کیوں نہیں جاری کئے گئے؟ یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ فیصلے میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر اور کیبنٹ آن سکیورٹی کا کیا روڈ تھا؟ اگر پتہ نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟ سوال نمبر4 : جنگی جہاز کی قیمت کو لیکر سرکار پارلیمنٹ میں جانکاری دینے سے کتراتی رہی ہے۔ سرکار نے جنگی جہاز کی قیمت بتانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ یہ سکیورٹی اور راز کا معاملہ ہے۔ الزام لگانے والے بی جے پی سے جڑے دونوں سابق وزرا کا کہنا ہے قواعد کے مطابق راز جنگی جہاز کی تکنیکی جانکاری کے بارے میں رکھا جاتا ہے قیمت کے بارے میں نہیں، کیا سرکار کی ذمہ داری دیش کو یہ بتانا نہیں ہے کہ خزانے سے تقریباً 36 ہزار کروڑ روپے زیادہ کیوں خرچ ہورہے ہیں؟ سرکار کے وزرا نے بیشک یہ کہا ہے کہ جہاز میں بہت سارے سازو سامان اور ہتھیار الگ سے لگائے گئے ہیں اس لئے قیمت بڑھی ہے۔ پارلیمنٹ میں دی جانکاری کی بنیاد پر لوگ الزام لگا رہے ہیں جو پچھلا سودا ہوا تھا اس میں سبھی فاضل سازو سامان اور ہتھیاروں کی قیمت بھی شامل تھی۔ سرکار کو یہ بتانا چاہئے آخر سچ کیا ہے؟ جس دن نریندر مودی نے پیرس میں جنگی جہاز خرید کے معاہدہ پر دستخط کئے تھے وہ تاریخ تھی 10 اپریل 2015۔ 25 مارچ 2015 کو ریلائنس نے ڈیفنس سیکٹر میں ایک کمپنی بنائی جسے صرف 15 دن بعد تقریباً 30 ہزار کروڑ کا ٹھیکہ مل گیا۔ ایک ایسی کمپنی جس نے ڈیفنس سازو سامان بنانے کے سیکٹر میں کبھی کوئی کام نہیں کیا ہے ایس اے بی فرانسیسی کمپنی اپنی مرضی سے ایسا پارٹنر کیوں چنے گی یہ ایک پہلی ہے۔ سودے کے وقت فرانس کے صدر رہے فرانسوا اولاند نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ریلائنس کے نام کی پیشکش ہندوستان کی طرف سے ہوئی تھی۔ ان کے سامنے کوئی متبادل نہیں تھا۔ صفائی میں سرکار کے وزیر کہہ رہے ہیں یہ راہل ۔اولاند کی جگل بندی ہے ، ایک سازش ہے۔ بھارت میں شاید ہی کوئی بڑا ڈیفنس سودا ہوا ہو اور اس میں گھوٹالہ ، دلالی اور رشوت خوری کے الزام نہ لگے ہوں لیکن کسی بھی معاملے میں الزام ثابت نہیں ہوتے۔ سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔ رافیل معاملہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوگا؟ دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت کے بیدار شہریوں کو ٹی وی پر تو چور تیرا باپ چور والا ڈرامہ دیکھ کر تسلی کرنی ہوگی یا پرسپشن کی لڑائی میں کچھ حقائق اور دلائل بھی سامنے آئیں گے؟ کیا پتہ؟ دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں کیا ہوتا ہے؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟