رافیل پر سپریم کورٹ فیصلے سے بڑھی سیاسی ہلچل

چناوی برس میں سیاسی اشو بن رہا رافیل سودا مستقبل میں یا تو مودی سرکار کی مشکلیں بڑھائے گا یا پھر اپوزیشن کے ارادوں پر پانی پھیرے گا۔ سپریم کورٹ نے بدھوار کو مرکزی حکومت سے پوچھا کہ اس سودے کا فیصلہ کیسے لیا گیا تھا، اس سودے سے وابستہ خانہ پوری کی مفصل جانکاری مانگنے کے بعد سیاسی ہلچل بڑھ گئی ہے۔ اگر اپوزیشن کے الزامات کے مطابق سودے پر مہر لگنے سے پہلے ڈیفنس معاملوں کی وزارتی کمیٹی سمیت دیگر کمیٹیوں کو کنارے کرنے کا دعوی صحیح پایا گیا تو مودی سرکار کٹہرے میں کھڑی ہوجائے گی۔ وہیں اگر اس کے الٹ اس میں کسی طرح کی خامی نہیں پائی گئی تو لوک سبھا چناؤ میں اسے اشو بنانے کی تاک میں لگی اپوزیشن کو جھٹکا لگے گا۔ دراصل رافیل سودے میں اپوزیشن انل امبانی کی کمپنی کو آفسیٹ پارٹنر بنانے اور زیادہ قیمت چکانے کے علاوہ ضروری خانہ پوریوں کی تعمیل نہیں کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ اپوزیشن خاص طور پر کانگریس صدر راہل گاندھی، سینئر وکیل و لیڈر پرشانت بھوشن اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کے ساتھ ساتھ سابق وزیر ارون شوری کا الزام ہے کہ سودے پر آخری فیصلہ لیتے وقت سرکار نے ٹنڈر طلبی کمیٹی، قیمت متعین کمیٹی ڈیفنس معاملوں کی وزارتی کمیٹی سمیت کئی ضروری خانہ پوریوں کو درکانار کیا، جبکہ کارروائی کو قطعی شکل دینے کیلئے ان کی رضامندی ضروری ہے۔ ایسے میں مرکز سے حاصل جانکاری میں سپریم کورٹ نے خانہ پوریوں کی خلاف ورزی کے الزامات کو صحیح پایا تو مودی سرکار کی مشکلیں بڑھ جائیں گی۔ اس کے الٹ اگر جانکاری میں سبھی خانہ پوریوں کی تعمیل کرنے کی حقیقت سامنے آئی تو اپوزیشن کو سرکار کو گھیرنے کے منصوبے پر پانی پھر جائے گا۔ اس درمیان وزیر دفاع نرملا سیتا رمن تین روزہ دورہ فرانس کے لئے بدھوار کو یہاں سے روانہ ہوئیں ان کا یہ دورہ چھتیس رافیل جہازوں کی خرید کو لیکر بھارت ۔ فرانس میں پیدا ہوئے تنازعوں کے درمیان ہورہا ہے۔ اپوزیشن نے وزیر دفاع کے اس دورہ پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا وہ اس تنازع میں سرکاری موقف کو مضبوط کرنے کیلئے گئی ہیں؟ پورے معاملے کا ایک اور نیا پہلو یہ بھی ہے کہ رافیل جہاز بنانے والی کمپنی دی سالٹ ایوی ایشن کے اندرونی دستاویزوں کے حوالے سے ایک فرانسیسی تفتیشی میگزین اور ویب سائٹ نے بھارت کے ساتھ ڈیل کے لئے انل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کو شامل کیا جانا ضروری بتانے کا دعوی کیا ہے۔ میگزین نے سودے سے متعلق دستاویز کے حقائق سے دعوی کیا ہے کہ اس سودے میں ریلائنس کو فریق بنانے کی ضروری شرط رکھی گئی تھی۔ اس دعوی سے بھارت میں پہلے سے ہی جاری تنازعہ اور تیز ہونے کا امکان ہے۔ میگزین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے دی سالٹ کمپنی کے دستاویزات کو دیکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رافیل سودے کے لئے ریلائنس کے ساتھ جوائنٹ وینچر ضروری تھا۔ حال ہی میں اسی میگزین’’ میڈیائی پارٹ‘‘ نے سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کا انٹرویو بھی لیا تھا اس میں انہوں نے کہا تھا کہ دی سالٹ کے لئے بھارت میں ریلائنس کو آفسیٹ پارٹنر چننے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ اس معاملے میں فرانس سرکار کا کوئی رول نہیں تھا اور ریلائنس کے نام کی تجویز ہندوستان کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ رافیل پر جاری تنازع کے درمیان سرکار کو ہدایت دی ہے کہ وہ سیل بند لفافے میں کورٹ کو فرانس سے ہوئے سودے خریدنے کی تفصیلات بتائے۔ حالانکہ یہ بھی کہا کہ ایسا عرضیوں میں اٹھائے گئے اشو کی بنیاد پر نہیں کررہا ہے کیونکہ اس کے لئے عرضیوں میں دی گئی بنیاد کافی نہیں ہے۔ سیل بند لفافے میں دی جانے والے سودے کے فیصلے کی کارروائی سپریم کورٹ رجسٹری میں نہیں داخل کی جائے گی۔ اسے تین سیل بند لفافوں میں 29 اکتوبر تک سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل کو دی جائے گی۔ معاملے پر 31 اکتوبر کو پھر سماعت ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟