سی ایم بنام سی ایس :چارج شیٹ کے بعد کیا

چیف سکریٹری انشوپرکاش بدسلوکی و مارپیٹ معاملہ میں دہلی پولیس نے وزیر اعلی اروندکیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا و دیگر 11 ممبران اسمبلی کے خلاف پیر کے روزپٹیالہ ہاؤس کی اسپیشل عدالت نے 1533 صفحات کی چارج شیٹ دائرکی ہے۔ ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ13 الگ الگ دفعات لگائی گئی ہیں۔ ایڈیشنل چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ سمر وشال کی عدالت 25 اگست کو اس پر نوٹس لے گی۔ چیف سکریٹری انشوپرکاش کو اہم گواہ بنایا گیا ہے۔ وزیر اعلی کیجریوال کے اس وقت کے مشیر بی کے جین کو اہم چشم دید گواہ بنایا گیا ہے۔ وہیں چار دیگر آئی اے ایس افسر جو وزیر اعلی، نائب وزیر اعلی و دیگر وزرا کے برے برتاؤ کا شکار ہوئے ہیں انہیں بھی اہم گواہ بنایا گیا ہے۔ چارج شیٹ میں سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔1 کیجریوال ،سسودیا و دیگر ممبران نے مجرمانہ سازش کر چیف سکریٹری کو قتل کے ارادہ سے سنگین چوٹ پہنچائی۔2 افسرو ں کو قید کر ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور بے عزت کیا گیا۔ 3 سبھی ممبران نے حالات خراب کئے۔4 ان لوگوں نے چیف سکریٹری کو اپنی پبلک سروس کی ذمہ داری نبھانے سے روکا اور قید کیا۔ اگر یہ کیس پولیس ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ان دفعات کے تحت زیادہ سے زیادہ7 سال کی سزا ہے۔ اگر ثابت ہوجاتا ہے اور تین سال سے زیادہ کی سزا ہوتی ہے توملزمان کا سیاسی کیریئر تقریباً ختم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ تین سال سے زیادہ سزا میں ملزم چناؤ نہیں لڑ سکتا۔ ہمارے سامنے راشٹریہ جنتادل کے چیف لالو پرساد یادو کا مقدمہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سی بی آئی عدالت میں اپنا کیس ثابت کر پائے گی؟ سی بی آئی کا ان معاملوں میں تو ٹریک ریکارڈ کوئی زیادہ اچھا نہیں ہے۔ ایک انگریزی اخبار میں شائع خبر میں سی بی آئی کے ذریعے دہلی سرکار کے وزرا اور ممبران اسمبلی کے خلاف 22 مقدمے درج کئے تھے ان میں سے 19 مقدمے عدالت نے خراج کردئے۔ ایک مقدمہ میں تو نائب وزیر اعلی منیش سسودیا تک بری ہوگئے۔ سی بی آئی نے دہلی سرکار کے وزرا و ممبران اسمبلی کے خلاف کرپشن کو لیکرکئی بار چھاپے مارے اور میڈیا میں ان کے خلاف الزامات لگے لیکن ابھی تک ایک بھی کیس سی بی آئی عدالت میں درج نہیں کرایا۔ دہلی سرکار کے وزیر ستیندر جین ،گوپال رائے، کیلاش گہلوت، راجندر پال، گوتم اور عمران حسین نے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ چارج شیٹ چنی ہوئی سرکار کو پریشان کرنے اور ان کے خلاف کی جانے والی سازش کی تازہ مثال ہے۔ یہ مودی سرکار کی مایوسی کا نتیجہ ہے اگر وزیر اعلی انتظامیہ کے سربراہ ہیں تو چیف سکریٹری افسر شاہی کے بڑے عہدہ پر بیٹھا افسر ہے۔ ظاہر ہے سی ایم ہاؤس میں اس رات کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو اس کی ذمہ داری سے قطعی نہیں بچ سکتے۔ الزامات میں کتنی سچائی ہے عدالت یہ جاننے کے لئے گواہوں اور ثبوتوں کا سہارا لے گی اور اگر فیصلہ وزیر اعلی اور ساتھیوں کے خلاف آتا ہے تو دیش کے سیاسی کلچر پر کالے داغ سے کم نہیں ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سی بی آئی کیس ثابت کرسکتی ہے یا نہیں ؟ بہتر تو یہ ہوگا کہ شری کیجریوال و ساتھی چیف سکریٹری و اعلی افسران کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملہ کو سلجھا لیں، اس میں سبھی کی بھلائی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!