داغی کو ٹکٹ دینے والی پارٹی کا رجسٹریشن کیوں نہ منسوخ ہو

سنگین مجرمانہ مقدموں کا سامنا کررہے اشخاص کے چناؤ لڑنے پر پابندی کے لئے دائر عرضیوں پر سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں سماعت شروع ہوگئی ہے۔سپریم کورٹ کی واضح رائے کہ دیش کی سیاست میں جرائم پیشہ کی اینٹری نہیں ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس روہت نریمن، اجے، خان ولکر ،دھننجے چندرچوڑ، جسٹس اندو ملہوترہ کی آئینی بنچ نے جمعرات کو مرکزی حکومت سے پوچھا کیوں نہ مجرمانہ مقدمات جھیلنے والے اشخاص کو چناؤ لڑنے کا ٹکٹ دینے والی سیاسی پارٹیوں کا رجسٹریشن منسوخ کردیا جائے؟ عدالت عظمیٰ نے حکومت سے پوچھا کیا چناؤ کمیشن کو ایسا کرنے کی ہدایت دی جاسکتی ہے؟ سیاست میں جرائم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونے کی بات کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ جرائم سے پاک سیاست کے لئے کیا آئین سازیہ کو اس سلسلہ میں قانون بنانے کے لئے کہا جاسکتا ہے؟ پانچ نفرتی آئینی بنچ نے یہ سوال اس سلسلہ میں داخل مفاد عامہ کی عرضیوں پر سماعت کے دوران اٹھائے۔ بتادیں کہ 8 مارچ 2016 کو ایک تین نفری بنچ نے معاملہ آئینی بنچ کے حوالہ کردیا تھا۔ اس سے پہلے عدالت ایم پی اور ممبران اسمبلی پر چل رہے جرائم کے مقدموں کی سماعت اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کر ایک سال میں نپٹانے کی ہدایات سبھی ہائی کورٹ کو دے چکی ہے۔ سیاست میں مجرمانہ عناصر کی دخل اندازی کوئی اچانک سامنے نہیں کھڑی ہوئی ، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دیش کے جمہوری ڈھانچے کو لیکر فکر مند حلقوں میں طویل عرصہ سے تشویش جتائی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مجرمانہ پس منظر کے یا اس سے متعلق مقدمات کا سامنا کررہے لوگوں کی اینٹری کو کئی بار قانونی طور پر شکنجہ کسنے کے معاملہ اٹھے ہیں لیکن اب تک اس معاملہ پر کوئی ٹھوس قواعد و ضوابط عمل میں نہیں آسکے۔ جمعرات کو ایک بار پھر سپریم کورٹ نے اس سوال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی نظام میں جرائم کرن کی اینٹری نہیں ہونی چاہئے۔ حالانکہ مرکزی سرکار کا خیال ہے کہ یہ موضوع پوری طرح پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ مرکزی سرکار کی طرف سے پیش اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اشو پوری طرح سے پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ساتھ ہی کہا جہاں تک سزا سے پہلے چناؤ لڑنے پر پابندی کا سوال ہے تو کوئی بھی آدمی تب تک بے قصور ہے جب تک کورٹ اسے سزا نہیں دے دیتی۔ آئین کے تقاضے یہ ہی کہتے ہیں ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ وزیر جب حلف لیتے ہیں تو آئین کو اس سے اچھوتا رکھنے کی بات کرتے ہیں تو کیا کوئی آدمی جس کے خلاف مرڈر کا الزام ہے وہ ایسا کرسکتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حلف نامہ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ جن کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اس دوران عرضی گزار کے وکیل دنیش دویدی نے کہا کہ 2014 سے 34 فیصدی ایم پی ایسے پارلیمنٹ پہنچے ہیں جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا قانون توڑنے والا قانون بنا سکتا ہے؟ سیاست میں جرائم کی اینٹری جمہوریت میں ناقابل قبول ہے۔ اس پر جسٹس روہنٹن نریمن نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے ہم تو اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے اسی سے پتہ چلتا ہے پانچ مہینے پہلے مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ کو یہ بتایا تھا کہ دیش بھر میں 1765 ایم پی و ممبران اسمبلی کے خلاف 3045 مجرمانہ مقدمہ زیر التوا ہیں۔ موجودہ سسٹم کے مطابق دو سال یا اس سے زیادہ کی سزا والے قصوروار شخص جیل سے چھوٹنے کے چھ سال بعد تک چناؤ نہیں لڑسکتا لیکن ایسے لوگوں کے تاحیات چناؤ لڑنے پر پابندی لگانے کی مانگ کی جارہی ہے۔ اس مسئلہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی مقدمہ کے فیصلہ میں قصوروار ٹھہرائے جانے تک کسی شخص کو بے قصور مانا جاتا ہے لیکن اگر صرف مقدمہ کو امیدواری کے لئے نااہلی کی بنیاد مانا جائے گاتو اس سے کچھ مشکلیں کھڑی ہوسکتی ہیں۔ اسی سے متعلق ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس طرح کے قانون کا سیاسی بیجا استعمال کا اندیشہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ پولیس ریاستی سرکاروں کے ماتحت کام کرتی ہے اس لئے حکمراں پارٹی اپنی اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو جھوٹے مقدمہ دائر کر چناؤ لڑنے سے روکنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ پھر کوئی مقدمہ فیصلہ تک پہنچنے میں سالوں لگ سکتے ہیں اور اتنے وقت تک کے لئے چناؤ میں حصہ لینے سے روکنا جمہوریت کے لئے مناسب نہیں مانا جائے گا۔ ظاہر ہے ان اعتراضات کو پوری طرح درکنار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود اسی اندیشہ کو بنیاد بنا کر سیاسی عمل میں مجرمانہ عناصر کی دخل اندازی کو روکنے کی کوشش کے تئیں ٹال مٹول کا رویہ صحیح نہیں ہوگا۔ سیاسی پارٹیاں ٹکٹ دیتے وقت امیدوار کے کرمنل ریکارڈ سے زیادہ اس کے ذریعے سیٹ نکالنے کے امکان کو جب تک ترجیح دیتی رہیں گی اس میں شبہ ہی ہے بھارت کی سیاست جرائم سے پاک ہوسکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟