آج ہرشخص پریشاں سا کیوں ہے

آج کی تاریخ میں ہر آدمی پریشان ہے۔ میں نے زیادہ تر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ آج خوش نہیں ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی مسئلہ میں گھرا ہوا ہے۔ بہت کم شخص ایسے ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ آج کے حالات سے وہ مطمئن ہیں۔ میرا یہ نظریہ صحیح ثابت ہورہا ہے۔ ایک حالیہ سروے میں یہ بتایا گیا ہے کہ دیش میں 89 فیصدی لوگ کشیدگی کا شکار ہیں۔ اس شہر میں ہر شخص پریشاں سا کیوں ہے؟ قریب40 برس پہلے میٹرو زندگی کی بھاگ دوڑ میںیہ سوال پوچھا تھا لیکن آج عالم یہ ہے کہ بات شہر سے بڑھ کر دیش تک پہنچ گئی ہے۔ سروے میں شامل لوگوں میں سے ہر 8 کشیدگی سے متاثرہ لوگوں میں سے ایک شخص کو ان پریشانیوں سے نکلنے میں سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گھر، خاندان، سماج، دفتر سب جگہ لوگ اس کے شکار ہیں۔ بچے ،بوڑھے، بڑے کوئی بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے لوگ کئی وجوہات سے اپنے اس مسئلہ کا علاج نہیں کرپاتے۔ ترقی یافتہ اور کئی ملکوں کے مقابلہ میں بھارت میں کشیدگی کی سطح بڑی شکل لے چکی ہے۔ اس سروے کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے 14467 لوگوں سے آن لائن انٹرویو لیا گیا جس کے بعد یہ سامنے آیا کہ بھارت مسلسل چوتھے برس کشیدگی کے معاملہ میں دنیا کے باقی ملکوں سے کہیں آگے ہے۔ کشیدگی کے اسباب کی بات کی جائے تو لوگوں کا کام اور ان کی اقتصادی حالت اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ایسے میں جو سوال پریشان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر اتنی بڑی آبادی کشیدگی میں جی رہی ہے تو صحتمند سماج کی تعمیر آخر کیسے ہوگی؟ کیا سرکار کواس بارے میں نہیں سوچنا چاہئے؟ اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو حکمراں سرکار کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ساتھ ساتھ بھارت میں دماغی مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ جائے گی اور یہ دیش میں دھماکہ خیز حالت پیدا کرسکتی ہے۔ عام شہروں اور میٹرو شہروں میں لوگ جس طرح کی بھاگ دوڑ بھری زندگی جی رہے ہیں اس کاسبب کشیدگی ہوتی ہے۔ زیادہ ہی سب کچھ شاٹ کٹ سے حاصل کرنے کی چاہ اور آلہ کار مقابلوں نے اس کشیدگی بھری زندگی کو بڑھاوا دیا ہے۔ کوئی تو مہنگائی سے پریشان ہے تو کوئی جی ایس ٹی سے تو کوئی بازار میں گراہکوں کے غائب ہونے سے۔ نوجوانوں میں روزگار ایک بڑا مسئلہ ہے، لاکھوں کی تعداد میں آج پڑھے لکھے نوجوان نوکری کے لئے بھٹک رہے ہیں۔ عورتیں اپنی جگہ غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں۔ اس کشیدگی بھری زندگی میں سبھی قارئین کو یوم آزادی کی مبارکباد۔ امید کرتے ہیں اس سے جلدی چھٹکارا ملے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟