دیش نے ایک یگ پروش کھویا، ہم نے تو بہت کچھ کھو دیا
اٹل بہاری واجپئی کا جانا صحیح معنوں میں ایک دور کا خاتمہ ہے۔ ہندوستانی سیاست میں اٹل جی ایک ایسا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے بھرنا آسان نہیں ہوگا۔ ہندوستانی جمہوریت نے جو بھی گنے چنے سیاستداں پیدا کئے ہیں اٹل جی ان میں سب سے اونچے مقام پر شمار کئے جاسکتے ہیں۔ اٹل بہاری واجپئی یعنی ایک ایسا نام جس نے ہندوستانی سیاست کو اپنی شخصیت، اپنے عمل سے اس طرح سے متاثر کیا جس کی دوسری مثال ملنی مشکل ہے۔ ایک عام خاندان میں پیدا ہوئے اس سیاستداں نے اپنی تقریر فن اور دل کو بھانے والی مسکان اور تحریر و آئیڈیالوجی ، فراخ دلی کا جو ثبوت دیا ہے وہ آج کی سیاست میں بہت اہم ہے۔ بھاجپا کے وہ ایک محض لیڈر تھے جنہیں آجات شترو کہا جاسکتا ہے۔ اٹل جی کا جتنا سنمان پارٹی میں تھا اس سے کہیں زیادہ دوسری پارٹیوں کے نیتا ان کا احترام کیا کرتے تھے۔ بہت متوازن، نپی تلی زبان اور دلچسپ انداز اور دلائل پر مبنی ڈھنگ سے اپنی بات رکھتے تھے۔ اٹل جی جب پارلیمنٹ میں بولتے تھے تو سبھی سیاسی پارٹیوں کے نیتا ان کی تقریروں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ سنا کرتے تھے۔ پارٹی سے بالاتر ہوکر عزت حاصل کرنے والے اس اہم خوبیوں کے مالک وہ بھاجپا کوایک قابل قبول اور عوامی شکل دے سکے۔ صحیح معنوں میں وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد بھارت کے سب سے کرشمائی لیڈر اور وزیر اعظم ثابت ہوئے۔ صحیح معنوں میں اٹل بہاری واجپئی ایک ایسی سرکار کے نائک بنے جس نے ہندوستانی سیاست میں تال میل کی سیاست کا آغاز کیا۔ وہ ایک معنی میں ایک ایسی قومی سرکار تھی جس میں مختلف وراثتی نظریات، علاقائی مفادات کی نمائندگی کرنے والے تمام لوگ شامل تھے۔ دو درجن پارٹیوں کے نظریات کو ایک منتر سے نبھانا آسان نہیں تھا لیکن اٹل جی کا قومی نظریہ ان کی سادھنا اور بے داغ شخصیت نے سارا کچھ ممکن کردیا۔ وہ صحیح معنوں میں ہندوستانیت اور اس کے وقار کی مثال بن گئے۔ ان کی حکومت میں عدم استحکام کے بھنور میں پھنسے دیش کو ایک نئی راہ دکھائی۔ یہ راستہ ملی جلی حکومتوں کی کامیابی کی مثال بن گیا۔ اٹل بہاری واجپئی صحیح معنوں میں ایک ایسے وزیراعظم تھے جو بھارت کو سمجھتے تھے ہندوستانیت کو سمجھتے تھے۔ سیاست میں ان کی کھینچی لکیر اتنی لمبی ہے جسے پار کرپانا ممکن نہیں دکھائی پڑتا۔ انہوں نے دہائیوں بعد قومیت کو بالاتر مانا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی سرکار گڈ گورننس کی مثال قائم کرنے والی ثابت ہوئی۔ عوامی رابطہ پالیسیوں کے ساتھ مہنگائی، عام آدمی کے مفادات کو ہمیشہ دھیان میں رکھ کر پالیساں بنائی گئیں۔ انہوں نے کہا لوگوں کے سامنے ہمارا پہلا عزم ایک ایسی پائیدار ،ایمانداری اور شفاف سرکار دینے کا ہے جو چوطرفہ ترقی کرنے میں اہل ہو۔ اس کے لئے سرکار ضروری انتظامی اصلاحات کے سلسلے میں پروگرام شروع کرے گی۔ ان اصلاحات میں پولیس اور دیگر سول سروسز میں کی جانے والی اصلاحات شامل ہیں۔ این ڈی اے نے دیش کے سامنے ایسی گڈ گورننس کی مثال رکھی جس میں قومی سلامتی، دیش کی بازآبادکاری اور فیڈرلزم کا نظریہ اقتصادی اور جدیدیت و سماجی انصاف وغیرہ جیسے سوال شامل تھے۔ عام جنتا سے وابستہ سہولیات کا وسیع پھیلاؤ ،آئی ٹی انقلاب، انفورمیشن انقلاب اس سے جڑی کامیابیاں ہیں۔ اٹل جی سے ان کے سیاسی حریف بھی کتنا پیار کرتے تھے اس مثال سے پتہ چلتا ہے جب راجیو گاندھی کا قتل ہو تب اٹل جی نے ایک قصہ بیان کیا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ڈاکٹروں نے انہیں سرجری کرانے کی صلاح دی تھی۔ اس کے بعد وہ سو نہیں پا رہے تھے، ان کے دل میں شش و پنج کی صورتحال بنی ہوئی تھی کہ راجیو گاندھی نے انہیں اقوام متحدہ جانے والے نمائندہ وفد میں ان کا نام شامل کر امریکہ بھیجا۔ راجیو گاندھی کا مقصد تھا کہ امریکہ میں اٹل جی کا علاج ہو اور ہوا بھی۔ سارا خرچ راجیو سرکار نے اٹھایا۔ اٹل جی نے راجیو گاندھی کے قتل کے بعد پہلی بار یہ قصہ سنایا تھا اور کہا تھا کہ راجیو گاندھی ایک مہان شخصیت تھے اور ان کے بڑکپن کی سراہنا کرتے رہے اور کہتے رہے کہ راجیو گاندھی کی وجہ سے میں آج زندہ ہوں۔ اٹل جی سے جو مل لیا کرتا انہیں کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔ وہ بھی ایک بار رابطہ قائم کرلیں تو آخری وقت تک نبھاتے تھے۔ اٹل جی کا پرتاپ، ویر ارجن، ساندھیہ ویر ارجن پریوار سے ہمیشہ قریبی تعلق رہا ہے۔ ایسی کئی ذاتی مثالیں ہیں جس میں سے کچھ کو میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اٹل جی ویرارجن کے سابق مدیر رہ چکے تھے ۔ انہوں نے ویر ارجن کی ادارت 1950 سے 1952 کے درمیان کی تھی۔ اٹل جی ویر ارجن میں اس وقت ایڈیٹر تھے جب میرے سورگیہ دادا مہاشہ کرشن جی چلایا کرتے تھے۔ اٹل جی کیوں کہ آر ایس ایس کے پرچارک بھی تھے اور انہیں دنوں جن سنگھ کے بانی ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی جموں و کشمیر میں داخلہ کے لئے پرمٹ سسٹم کی مخالفت کرنے کے لئے 1952 میں سری نگر جا رہے تھے۔ اٹل جی بھی ان کے معاون کی شکل میں سرینگر چلے گئے۔ اٹل جی نے نہ صرف ویر ارجن میں کام کرنا بند کیا بلکہ صحافت چھوڑ کر سیاست میں قدم رکھا۔ جب وہ وزیر اعظم بنے تھے تو میرے سورگیہ پتا کے نریندر کا جنم دن منانے کے موقعہ پر میں اٹل جی سے ملا اور انہیں میرے گھر سندر نگر آنے کی دعوت دی گئی۔ اٹل جی فوراً تیار ہوگئے اور سندر نگر میرے گھر تشریف لائے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تو انہیں اقوام متحدہ میں تقریر کرنی تھی اور وہ اپنے ساتھ کچھ صحافیوں کو بھی لے جا رہے تھے تو انہوں نے1998 میں اس ٹیم میں مجھے بھی 14 نفری ٹیم میں شامل کیا۔ اس کے دو سال بعد 2002 میں ویتنام اور انڈونیشیا (بالی) گئے۔ ایک بار ایسا ہوا جب میرے سورگیہ پتا شری کے نریندر اپنا جنم دن چیمس فورڈ کلب میں اپنے دوستوں کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا۔ اٹل جی تب وزیر اعظم نہیں تھے جب انہیں پتہ چلا تو وہ گول گپے لیکر کلب پہنچ گئے اور پھر کئی بار اٹل جی سے ملنا ہوا۔ یہ باتیں اب یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اٹل جی کے جانے سے ہمیں تو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے لیکن کیا کر سکتے ہیں سوائے اپنی شردھانجلی پیش کرنے کے۔ راج دھرم کے اپنانے کے ساتھ احتجاج کا احترام کرنے والے سیاستداں کی شکل میں وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں