راہل گاندھی کی قیادت صلاحیت پر سوالیہ نشان

کانگریس صدر راہل گاندھی ویسے تو مہا گٹھ بندھن بنانے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن اس چھوٹے سے چناؤ میں تو جس طرح اپوزیشن نے جیتی ہوئی پاری ہاری ہے اس سے تو راہل گاندھی کی قیادت کی صلاحیت پر زیادہ بھروسہ نہیں قائم ہوتا۔ میں آج راجیہ سبھا ڈپٹی چیئرمین کے چناؤ میں کانگریس امیدوار وی کے ہری پرساد کی ہار کی بات کررہا ہوں۔ اپوزیشن کے پاس ممبران کی درکار تعداد نہ ہونے کے باوجود این ڈی اے کا امیدوار ہری ونش نرائن سنگھ چناؤ جیت گئے ہیں جبکہ این ڈی اے اکثریت سے کم ہونے کے بعد جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ این ڈی اے نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ مودی۔ امت شاہ کی جوڑی کے سامنے مضبوط اور کامیابی اپوزیشن کا تانا بانا قائم کرنا آسان نہیں ہے۔ ورنہ کیا بات ہے کہ این ڈی اے سرکار کے خلاف اپوزیشن کی صف بندی اس راجیہ سبھا میں بکھرگئی جہاں این ڈی اے کے پاس اپنے امیدوار ہری ونش کو جتانے لائق اکثریت کا جادوئی نمبر بھی نہیں تھا۔ موجودہ سیٹ کانگریس پارٹی کے ممبر اور سابق ڈپٹی چیئرمین پی جے کرین کے ریٹائر ہونے سے خالی ہوئی تھی۔ آئینی روایت کے لحاظ سے بھی وہ عہدہ کانگریس کے ہری پرساد کو ہی جانا چاہئے تھا لیکن کانگریس اور اپوزیشن کی جگہ پر لگاتار قبضہ کررہے حکمراں اتحاد نے نہ صرف انا ڈی ایم کے کو چاق چوبند کیا بلکہ شش و پنج میں رہنے والے بیجو جنتا دل اور تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کو اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کے لئے تیار کرلیا۔ اتنا ہی نہیں اس نے وائی ایس آر کانگریس اور آپ کو پولنگ کا بائیکاٹ کرنے کے لئے بھی راضی کرلیا۔ یہ ایک جھلک ہے مستقبل کی جہاں 2019 کے عام چناؤ کے بعد اگر ایسی کوئی صورتحال بنی جس میں بھاجپا کو اکثریت نہیں ملی وہ اپنے انتظام کے فن سے اسے حاصل کرسکتی ہے۔ تین پارٹیوں کے کل سات ممبران نے ووٹ میں حصہ نہیں لیا جس میں عاپ کے تین ووٹ اپوزیشن کے کھاتے میں جڑ سکتے تھے لیکن کانگریس صدر راہل گاندھی نے عاپ سے رابطہ قائم نہیں کیا جبکہ این ڈی اے نے امیدواری کے باوجود کیجریوال سے رابطہ قائم کیا تھا۔ یہاں پر این ڈی اے اور اپوزیشن کا فرق دکھائی پڑتا ہے۔ صاف ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی مضبوطی کے لئے کانگریس کو لچیلا رخ اپنانا ہوگا۔ اس نتیجے کے بعد اپوزیشن کے لئے دو سندیش بہت واضح ہیں ایک یہ کہ لوک سبھا چناؤ میں صرف بھاجپا احتجاج سے کام نہیں چلے گا اور دوسرا علاقائی پارٹیوں کے لئے بھاجپا مخالفت کے بجائے مقامی مفادات اور اپنے وجود کی بے چینی زیادہ اہم ہے۔ ٹی آر ایس کی مثال سامنے ہے جس نے کبھی ممتا کے فیڈرل فرنٹ کی حمایت کی تھی لیکن راجیہ سبھا میں ووٹنگ کے وقت وہ این ڈی اے کے ساتھ ہوگئی۔ ایسے میں اب کانگریس کے اندر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں کہ جب این ڈی اے اپنی اتحادی پارٹیوں کو ساتھ رکھ کر دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرسکتی ہے تو کانگریس کیوں نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟