کیا صرف جینیرک دواؤں سے ہی ہیلتھ سیکٹر سدھرجائے گا

وزیر اعظم نریندر مودی کے سورت میں دئے گئے اس بیان کا خیر مقدم ہے کہ جنتا کو سستی دوا دستیاب ہو اور اس کے لئے ان کی حکومت کام کررہی ہے۔ آج کے وقت میں جن کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہے اس خاندان میں کوئی بیماری آجائے تو وہ علاج کے بوجھ کے تلے دب جاتا ہے۔ دوائیوں اور دیگر میڈیکل سازو سامان جن میں ہسپتال بھی شامل ہے،کے دام اتنے زیادہ ہیں کہ مریضوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ دیش میں سستی دوائیں دستیاب ہیں لیکن مریضوں تک ان کی پہنچ نہیں ہے۔ دوا کمپنیاں اور زیادہ تر ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے سستی جنیرک دواؤں پر برانڈڈ دوائیں حاوی ہورہی ہیں۔ نجی کمپنیاں جنیرک اور برانڈڈ دونوں ہی طرح کی دوائیں بناتی ہیں مگر جینیرک دواؤں کی مارکنگ نہیں ہوتی اور منظم طریقے سے اسے مریضوں تک پہنچانے سے روک دیا جاتا ہے۔ اگر حکومت اس سلسلے میں قانون بناتی ہے تو یقینی طور سے عام جنتا کو اس کا فائدہ ملے گا۔دوا دکانوں پر سستی جینیرک دوائیں ملتی ہیں نہیں، ان کی دلیل ہے کہ مریض خریدتا ہی نہیں۔ مریض اس لئے نہیں خریدتا کیونکہ ڈاکٹر لکھتے ہی نہیں۔ جب ڈاکٹر لکھیں گے ہی نہیں تو کیمسٹ کے پاس ڈیمانڈ نہیں آتی۔ جینیرک وہ دوا ہے جسے اس کی بنیادی سالٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ دوائیں جن کے پیٹنٹ ختم ہوچکے ہوتے ہیں ایسی دوائیں جو صرف ایک سالٹ سے بنی ہوں۔ امریکہ یا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق جس دوا کا پیٹنٹ ختم ہوچکا ہو مگر بھارت کے سلسلہ میں پیٹنٹ اشو نہیں ہے۔ ادھر پچھلے دس سال میں آئی کچھ نئی دواؤں کو چھوڑدیا جائے تو دیش میں تمام دوائیں پیٹنٹ کے بغیر ہی بن رہی ہیں حالانکہ نریندر مودی سرکار نے قریب 700 دواؤں کو سستا کیا ہے لیکن کم ہی ڈاکٹر ہیں جو اس فہرست کی دوا لکھتے ہیں۔ ڈاکٹروں، ہسپتالوں اور دوا بنانے والوں کی ملی بھگت کی وجہ سے عام آدمی کے علاج کے نام پر اتنا استحصال ہورہا ہے جس کا پہلے شاید کبھی تصور نہ کیاگیا ہو۔ پچھلے تین دہائی سے ہیلتھ سروس کے بڑھتے نجی کرن اور کمرشلائزیشن کے سبب ڈاکٹروں نے برانڈڈ دباؤ کا پرچہ چلا رکھا ہے۔اس سے دوا کمپنیوں کی آمدنی بڑھی ہے اور ڈاکٹروں کا کمیشن بھی بڑھا ہے جبکہ عام آدمی رشتہ داروں کی بیماری میں اپنا گھر بار گروی رکھ رکھا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کا یہ کہنا معاملہ کے لئے امید پیدا کرتا ہے کہ دیش کے ڈاکٹرجینیرک دوائیں لکھیں۔ اس کے لئے جلد قانون بنے گا۔ اس قانون کو جتنی جلدی سامنے لایا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ صرف قانون بنانے سے ہی سب کچھ ٹھیک نہیں ہوجائے گا بلکہ ایسا مانا جاسکتا ہے اب تک یہ کمیشن اور تحفوں کی عادت ڈاکٹروں کی دور نہیں ہوتی تب تک سستی دواؤں کی امید رکھنا مشکل ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!