اتنی بڑی جیت سے تو دنیا بھی حیرت میں ہے

اترپردیش اور اتراکھنڈ میں چناؤ جیتنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اب دیش کے 14 راجیوں تک پہنچ گئی ہے۔ 8 ریاستوں (اترپردیش، اتراکھنڈ، گجرات، ہریانہ، چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور آسام) میں بھاجپا کی مکمل اکثریت والی سرکار ہے۔جبکہ 6 ریاستوں (جموں وکشمیر، مہاراشٹر، اروناچل پردیش، آندھرا پردیش، ناگالینڈ ) میں اتحادی حکومت ہے۔ صدر پرنب مکھرجی کی عہدہ میعاد اس سال جولائی میں پوری ہوجائے گی ایسے میں چناؤ ممکن ہے۔ صدارتی چناؤ میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبران کے علاوہ سبھی ریاستوں کے ممبران اسمبلی ووٹ ڈالتے ہیں۔ سنیچر کو آئے 5 ریاستوں کے چناؤ نتائج میں بھاجپا کی رہنمائی والی این ڈی اے کو اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بھاری اکثریت ملی ہے۔ ایسے میں ان دونوں ریاستوں کے ممبران صدارتی چناؤ میں بڑا رول نبھائیں گے۔ ان چناؤ نتائج کا آگے چل کر راجیہ سبھا میں بھی بڑا فرق پڑے گا۔ مودی سرکار کے لئے اب اپنے بوتے پر بل پاس کروانے کی پریشانی دور ہوجائے گی۔ اترپردیش اور پنجاب سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ دہلی کی سیاست کو بھی متاثر کریں گے۔ اس کا سیدھا اثر اگلے مہینے ہونے والے ایم سی ڈی چناؤ پر بھی پڑنا طے ہے۔ اس لئے دہلی کے نیتاؤں کی دھڑکنیں تیز ہوگئی ہیں۔ دہلی کی سیاست میں سرگرم تینوں اہم پارٹیاں عام آدمی پارٹی، بھاجپا و کانگریس انتخابات میں سانجھے داری کررہی تھیں۔ ان انتخابات میں دہلی کے نیتاؤں نے بھی خوب پسینے بہائے ، وزیر اعلی اروند کیجریوال اور ان کے کیبنٹ کے دیگر ممبران نے بھی پنجاب اور گووا میں کئی مہینے تک محنت کی لیکن نتیجہ عاپ کے لئے مایوس کن آیا۔ مودی سرکار اسی ڈپلومیٹک کارروائی مشرقی پالیسی کی بہت اہمیت ہے۔مشرقی ایشیائی ملکوں میں بھارت کی ساکھ بڑھانے کے لئے مودی سرکار لگاتار اس پالیسی کو فروغ دے رہی ہے۔ چاہے ایکٹ ایسٹ کی پالیسی دیش کے اندر ہو یا باہر دونوں مودی سرکار کو مثبت اہمیت مل رہی ہے۔ منی پور اسمبلی چناؤ میں دوسری بڑی پارٹی بن کر بھاجپا نے یہ ثابت کردیا کہ دیش کے اندر بھی اس کی ایکٹ ایسٹ نیتی کا اثر ہورہا ہے۔ اس سے پہلے آسام میں اپنے بوتے پر سرکار بنانا پھر اروناچل پردیش میں سرکار بناکر بھاجپا نے یہ پہلے ہی دکھا دیا تھا کہ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں کمل کھلانے کی اس کی حکمت عملی کامیاب ہورہی ہے۔ منی پور اسمبلی چناؤ نے اسے اور پختہ کردیا ہے۔ بھارت کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ پر نظر اٹھائے دنیا کے بڑے دیش میں یوپی اتراکھنڈ میں ملی شاندارجیت کا سہرہ پی ایم مودی کو دے رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ، آسٹریلیا آن لائن، وولمرک جیسے اخبارات نے بھی لکھا ہے کہ نوٹ بندی کے فوراً بعد اسمبلی چناؤ میں 2014ء میں ملی جیت کو دوہراپانا کسی تعجب سے کم نہیں ہے۔ نیویارک ٹائمس نے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں شاندار جیت کا سہرہ مودی کو دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 2014ء میں ان کو ملی جیت اتنی بڑی تھی کہ اسے نوٹ بندی کے بعد اسمبلی چناؤ میں بدلنا ناممکن تھا لیکن یوپی کی 403 میں سے اتنی سیٹوں کا جیت جانا ایک کرشمہ ہی ہے یہ ثابت کرتا ہے کہ نریندر مودی ووٹروں کو سمجھا پائے ہیں کہ ان کے قدم غریب کے مفاد میں ہیں۔مودی نے یوپی کے ذات پات کے تجزیئے میں بھی سیند لگائی ہے جو مشکل تھا۔ جرمنی کے سب سے بڑی میڈیا گروپ دائیچے بیلے نے یوپی کا دنگل جیتنے کے پیچھے تین بڑی وجوہات گنائی ہیں۔ پہلا پی ایم مودی اب بھی لوگوں کی پہلی پسند بنے ہوئے ہیں، دوسرا مسلمانوں کے بنا بھی پردیش میں سرکار بنائی جاسکتی ہے، تیسرا یہ ذات دھرم ابھی بھی حاوی ہے۔ چین کی ریڈیو سروس سی آر آئی انٹرنیشنل نے کہا کہ یوپی میں بھاجپا کی زبردست کارکردگی نے سیاسی پنڈتوں کی پیشگوئی کو بھی فیل کردیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟