جسٹس کرنن : نہ سپریم کورٹ میرا مالک ، نہ ہائی کورٹ ان کا نوکر

سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک اہم ترین حکم میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سی۔ ایس۔ کرنن کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب ہائی کورٹ کے کسی موجودہ جج کے خلاف ضمانتی وارنٹ جاری ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے۔ ایس ۔کھیر کی رہنمائی والی سات نفری ججوں کی آئینی بنچ نے مغربی بنگال کے ڈی جی پی کو وارنٹ تعمیل کروانے کو کہا ہے۔ جسٹس کرنن کو 31 مارچ صبح 10:30 بجے سپریم کورٹ میں پیش کرنا ہوگا۔ یہیں پر توہین عدالت معاملے میں اپنا موقف رکھنے کے ساتھ ہی 10 ہزارروپے کا مچلکہ بھر کر وہ ضمانت لے سکیں گے۔ دوسری طرف جسٹس کرنن نے وارنٹ کو غیر آئینی و دلت مخالف قدم قراردیا ہے۔ انہوں نے تلخ انداز میں کہا کہ نہ تو سپریم کورٹ میرا مالک ہے اور نہ ہی ہائی کورٹ اس کا نوکر ہے۔انہوں نے کہا میرا کیریئر بربادکرنے کے لئے جان بوجھ کر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں جسٹس کرنن کہا میں نے 20 ججوں اور 1 سابق پی ایم کے خلاف شکایت کی تھی۔ اسی سبب میرے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ شروع کیا گیا۔ ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے کے راستے میں روڑا نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دلت ہونے کی وجہ سے وہ مجھے نشانہ بنا رہے ہیں۔ موجودہ جج کے خلاف وارنٹ کا کوئی تقاضہ نہیں ہے۔ میں سی بی آئی کو حکم دیتا ہوں کہ وہ کرپٹ ججوں کے خلاف جانچ شروع کریں اور جانچ رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی جائے گی۔ دوسری طرف اٹارنی جنرل مکل روہتکی نے آئینی بنچ کو بتایا کہ دو بار نوٹس بھیجنے کے بعدبھی جسٹس کرنن پیش نہیں ہوئے۔ ضمانتی وارنٹ جاری کر انہیں آنے کو مجبور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس کو دو خط لکھ کر نوٹس کو غلط ٹھہرایا ہے۔ مدراس ہائی کورٹ کے ججوں پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ معاملہ کچھ یوں ہے ۔جسٹس کرنل کے ذریعے مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف مبینہ طور سے لکھے توہین آمیز کھلے خطوط کو چیف جسٹس ،پردھان منتری اور دیگر کو مخاطب کئے جانے کے بعد عدالت نے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی۔ 8 فروری کو بڑی عدالت نے جسٹس کرنن کو شخصی طور سے موجود ہوکر صفائی پیش کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے؟ عدالت نے جسٹس کرنن کو جوڈیشری اور انتظامی کام کرنے پر بھی روک لگادی ہے۔ وہ13 فروری کو سپریم کورٹ میں موجود نہیں ہوئے۔ انہوں نے 10 فروری کو بڑی عدالت کو جو خط لکھا اس کی تفصیل میں نے اوپر بیان کردی ہے۔ جسٹس کرنن کے ذریعے عزت مآب سپریم کورٹ کے احکامات کو لگاتار نظر انداز کئے جانے سے جس طرح دھکا لگا ہے وہ باعث تشویش تو ہے ہی بلکہ عدلیہ میں ایک نئی آئینی پریشانی کھڑی ہوگئی ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد جسٹس کرنن نے جس طرح پریس کانفرنس بلا کر اپنا موقف رکھا اور سی بی آئی کو کرپشن کے معاملوں کی جانچ کرنے اور صدر سے وارنٹ منسوخ کرنے کی اپیل کی ہے ، وہ تو اور بھی افسوسناک ہے۔ انہوں نے عدلیہ سے باہر اپنی بات رکھنے کا جو وقت چنا وہ سپریم کورٹ کے لگاتار احکامات کے بعدبھی نہ وہ اب تک پیش ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے وکیل نے ان کی طرف سے کوئی موقف رکھا ہے۔ بتادیں کہ جسٹس کرنن اس سے پہلے بھی ججوں پر الزام لگا چکے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے ریمارکس کو سپریم کورٹ نے جب سنجیدگی سے لیا تھا، تب انہوں نے اپنا ذہنی توازن کھونے کی بات رکھ کر عدالت عظمیٰ سے معافی مانگی تھی۔ جسٹس کرنن کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوکر اپنی بات رکھیں۔ اس طرح سپریم کورٹ کو چنوتی دینا نہ تو ان کے حق میں ہے اور نہ ہی دیش کی عدلیہ کی ساکھ کے لئے اچھا ہے۔ یہ تو ایک نئی جوڈیشیری آئینی بحران کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اب سپریم کورٹ کو ہی اس معاملے میں فیصلہ لینا ہوگا کہ ہائی کورٹ کا کوئی جج اگر اس طرح سے اس کی توہین کرے تو متبادل کیا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟