یوپی میں کھسکتی مسلم نمائندگی

اترپردیش میں مسلمانوں کے حق کی بات کرنے والی سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی اس برادری کے ووٹوں کو لیکر آپسی کھینچ تان ،قوم کی نمائندگی پر بھاری پڑ گئی ہے جس کے چلتے اس بار اسمبلی چناؤ میں اب تک کی تاریخ میں سب سے کم 27 ممبران اسمبلی ہی جیتنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جبکہ اترپردیش اسمبلی کی 147 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر کسی بھی پارٹی کے امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2014ء کے لوک سبھا میں پردیش کے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہونے کے بعد اب اسمبلی میں نمائندگی کم از کم نمبروں تک پہنچ گئی ہے۔ ریاست کی سیاست میں مسلمانوں کا رول اہم ہے۔ کبھی کانگریس جس طبقے کے ووٹوں کو اپنی تھالی سمجھا کرتی تھی، منڈل کمنڈل کے دور میں سپا ۔بسپا نے نئی سیاسی گول بندی کا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کو اس میں شامل کیا جس سے اس طبقے کی نمائندگی بڑھنی شروع ہوئی۔ 1996ء میں 39 مسلمانوں کو ایم ایل اے کی ممبری ملی تھی۔ 
2002ء میں یہ تعداد 44 ہوئی اور 2007ء میں یہ 56 پہنچی اور 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں ریکارڈ 68 مسلم ممبران منتخب ہوئے مگر 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں سیاسی ماحول اس انداز میں بنا کے مسلم ووٹ بکھر گیا اور بھاجپا نے ٹکٹوں کی حصے داری سے مسلمانوں کو دور کرکے 81 بنام19 کا جو داؤ کھیلا اس سے پارلیمنٹ میں اترپردیش سے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہوگئی۔ اترپردیش کی 403 اسمبلی سیٹوں میں سے 147 پر مسلمان ووٹر سب سے زیادہ ہیں۔ ان میں رام پور ضلع سب سے اول ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد 42 فیصدی ووٹ ہے، مراد آباد میں 40، بجنور میں 38 ، امروہہ میں 37، سہارنپور میں 38، میرٹھ میں 30، کیرانہ میں 29، بلرام پور اور بریلی میں 28، سنبھل و کرانہ اور مظفر نگر میں 27-27، ڈومریا گنج میں 26، لکھنؤ بہرائج میں 9 فیصدی اور 23 فیصدی ہیں۔مسلمان ووٹروں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود 2014ء لوک سبھا چناؤ میں یوپی سے ایک بھی مسلم ایم پی جیت کا ذائقہ چکھ پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس اسمبلی چناؤ میں محض 27 مسلمان ہی چن کر آئے ہیں۔اس اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں کی گھٹی نمائندگی کے کئی اسباب نظر آتے ہیں۔ سپا ۔بسپا دونوں نے مسلم ووٹروں کی سیٹوں پر مسلمان امیدوار اتارے جس کی وجہ سے زیادہ تر سیٹوں پر مسلم ووٹ دونوں پارٹیوں میں بٹ گئے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہ دیکر ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں کرنے میں کافی کامیابی حاصل کی اور نتیجہ سامنے ہے۔ چناؤ نتائج یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آنے والے چناؤ میں مسلمان ایک فیکٹر تو رہے گا مگر وہ ووٹ بینک کی شکل میں نہیں مانا جائے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو یہ سمجھنا چاہئے مسلمان صرف مسلمان نہیں ہے اس کو بھی اتنی ہی ترقی کرنے کا حق ہے جتنا دیگر فرقوں کو ہے باقی گروپ کی طرح مسلمانوں میں بھی چھوٹی بڑی برادریوں میں خاصا اختلاف ہے۔اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ تین طلاق کے اشو پر مسلم خواتین نے کھل کر بھاجپا کا ساتھ دیا۔ ان مولویوں اور اماموں کی اپیلوں، فتوؤں کا کوئی اثر نہیں رہا۔ نوجوان پیڑھی اب ان دقیانوسی دلیلوں سے تنگ آچکی ہے۔ وہ اپنے روشن مستقبل ، روزگار کے موقعہ ، اقتصادی ترقی چاہتی ہے اس نے کانگریس، سپا اور بسپا کو آزما لیا ہے تو کیوں نہ مودی کو ایک موقعہ دیا جائے؟ نریندر مودی کو بھی مسلمانوں کی ترقی اور اچھی اسکیموں پر دھیان دینا ہوگا۔ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ پورے دیش کے وزیر اعظم ہیں نہ صرف ایک فرقے کے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟