یوپی میں مسلمانوں کے ایک طبقہ نے کھل کر بھاجپا کو ووٹ دیا

اسلامی مرکز دارالعلوم دیوبندجس کو دنیا میں منی مکہ اور یوپی کاسب سے بڑا روحانی مرکز مانا جاتا ہے وہاں بھاجپا نے دیو بند سمیت سہارنپور کی چاروں سیٹیں جیت کر سب کو چونکادیا ہے۔ خاص کر دیو بند میں جیت اس کی بڑی کامیابی مانی جارہی ہے۔ یہاں پر بھاجپا21 سال بعد پھر سے واپسی میں کامیاب ہوئی ہے۔ دلت۔ مسلم اتحاد کا تجزیہ بٹھانے میں جٹی بسپا یہاں کھاتہ بھی نہیں کھول پائی جبکہ سہارنپور کو اس کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ دیوبند کی بات کریں تو اس سے پہلے بھاجپا کو یہاں 1996ء میں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ اب یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس بار یوپی اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں نے کھل کر بھاجپا کو ووٹ دیا ہے خاص کر مسلم خواتین نے۔ کیا تین طلاق پر مرکزی سرکار کے موقف نے مسلم خواتین کو بھاجپا کو ووٹ دینے کے لئے مائل کیا ہے؟ 30 فیصدی سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی زیادہ پولنگ اور 9 علاقوں میں بھاجپا کی جیت سے یہ امکانی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔حالانکہ سوال ہوسکتا ہے زیادہ پولنگ کرنے والی عورتیں مسلمان تھیں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب صرف ’’بھرپور‘‘ ہے۔ سیاسی پارٹیوں ،سماجی اداروں نے جو ڈاٹا تیار کیا ہے اس کے مطابق 70 اسمبلی حلقہ ایسے ہیں جہاں مسلم آبادی 20 فیصد تک اور کم و بیش اتنی ہی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم آبادی 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان حلقوں کا نتیجہ جو بھاجپا کے حق میںآیا ہے وہ فطری طور پر یہ سوال ضرور کھڑا کرتا ہے کیا تین طلاق پر مرکزی حکومت کے موقف نے مسلم خواتین کو بھاجپا کو ووٹ دینے کے لئے راغب کیا ہے؟ اوران خواتین نے اپنے حقوق کے لئے روایتی بندھن کو توڑنے کا خطرہ اٹھایا ہے۔دلیل دینے والے فی الحال یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیسے ثابت ہوگا کہ جن علاقوں میں عورتوں کا ووٹ فیصد بڑھا ہے وہ مسلم عورتوں کے پولنگ میں اضافے کی علامت ہے۔ مسلم عورتیں اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہونے لگی ہیں۔ یہ شریعت کی روشنی میں انصاف چاہتی ہیں، فتووں کی بنیاد پر نہیں۔ ایسے میں اگر مسلم خواتین نے بھاجپا کو ووٹ دیا ہی ہو تو تعجب کیسا؟ سیاسی تجزیہ نگار بھی مانتے ہیں کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جس طرح سے پولنگ اور مختلف پارٹیوں میں ووٹوں کا بٹوارہ ہوا اس کے بعدبھی بھاجپا امیدواروں کی جیت ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم خواتین میں سے کچھ نے بھاجپا کو ضرور ووٹ دیا ہے۔ دوسری بات اب مسلمانوں میں بیداری آرہی ہے کہ انہوں نے سپا اور بسپا دونوں کو آزما لیا ہے۔ ایک طبقہ نوجوانوں کا اب کہنے لگا ہے کیوں نہ مودی اور بھاجپا کو آزمایا جائے۔ کانگریس۔ سپا اور بسپا نے ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر انہیں دیکھا ہے اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہے۔ عام طور پر مسلمان امن چاہتے ہیں ، وہ دنگے نہیں چاہتے اور امن سے اپنی روزی روٹی کمانا چاہتے ہیں ۔ انہیں لگتا ہے بھاجپا کے عہد میں دنگے نہیں ہوتے۔ گجرات میں ایک آدھ کو چھوڑ کر دنگے نہیں ہوئے۔ دہلی میں کوئی دنگا نہیں ہوا۔ اترپردیش میں سپا کے عہد میں 450 سے زیادہ چھوٹے بڑے دنگے ہوئے یہ وجہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے اس بار بھاجپا کو موقعہ دیا ہے اور بھاجپا کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟