بھنور میں پھنستی کانگریس

کبھی اپنے بیکوم آپریشن اور بہترین مینجمنٹ کیلئے جانی جانے والی کانگریس پارٹی کے ستارے ہی گردش میں چل رہے ہیں۔ جیتی ہوئی بازی کیسے ہاری جاتی ہے یہ کوئی کانگریس سے سیکھے۔ تازہ مثال ہے گووا۔ یہاں اسمبلی چناؤ میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے بعد بھی کانگریس آج اقتدار سے باہر ہے اور کرسی دیکھتے دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ گووا میں کانگریس سے سیٹیں کم پانے کے باوجود بھاجپا نہ صرف وہاں سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی بلکہ ان تمام پارٹیوں کوبھی اپنی طرف لانے میں کامیاب رہی جو بی جے پی کی مخالفت کرکے ہی چناؤ جیتے تھے۔ کانگریس اپنے خراب مینجمنٹ ، حکمت عملی کی خامیوں اور آپسی گروپ بندی کے چلتے گووا میں چوک گئی۔ اتنا ہی نہیں اپنی خراب حکمت عملی کے چلتے پارٹی کو سپریم کورٹ سے الگ پھٹکار لگی۔ سرکار نہ بن پانے کی ایک بڑی وجہ گووا کانگریس کے بڑے نیتاؤں میں سی ایم کے عہدے کو لیکر بحث اور کھینچ تان اور گروپ بندی ہے۔ نتیجہ آنے کے بعد پردیش کے انچارج دگوجے سنگھ نے اسمبلی پارٹی کے نیتا کو لیکر میٹنگ کی اس میں سابق وزیراعلی پرتاپ سنگھ رانے ،دگمبر کامت، رویش نائک اور موجود ہ کانگریس پردیش پردھان لوئی جن فلیرو نے اپنی دعویداری پیش کردی۔ کانگریس کی طرف سے دو دنوں تک سی ایم کے عہدے کیلئے نام نہ طے کرپانا اس کو بہت بھاری پڑ گیا۔ بی جے پی نے اس وقفے میں ممبران کو توڑ کر سرکار بنا ڈالی۔ آپسی گروپ بندی کے چلتے کانگریس کا گووا فارورڈ منچ پارٹی کے ساتھ چناؤ سے پہلے اتحاد بھی نہیں ہو پایا۔ کانگریس آہستہ آہستہ حاشیے پرجارہی ہے۔ اب تو کھل کر نائب صدر راہل گاندھی کی صلاحیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ایک کے بعد ایک لگاتار ہار سے کانگریس لیڈروں کا صبر اب جواب دینے لگا ہے اور وہ 10 جن پتھ سے وابستہ ہر سوال پر خاموشی اختیار کرنے والے نیتا اب دبے الفاظ میں راہل گاندھی کی لیڈر شپ و اہلیت پر سوال اٹھانے لگے ہیں۔ راہل گاندھی کو 2013ء میں کانگریس کا نائب صدر بنایا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مرکز میں یوپی اے کی سرکار تھی اور دیش کی کئی ریاستوں میں کانگریس اقتدار میں تھی لیکن آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ پارٹی کے پاس لوک سبھا میں بڑی اپوزیشن پارٹی بننے لائق ممبران تک نہیں ہیں اور گنی چنی ریاستوں میں ہی پارٹی کی سرکار ہے۔ راہل گاندھی بھلے ہی کانگریس کے نائب صدر ہوں لیکن سونیا گاندھی کی بیماری کے چلتے لمبے عرصے سے سیات میں سرگرم نہ ہونے کے سبب پارٹی کے سبھی فیصلے سیدھے سیدھے راہل گاندھی کے ذریعے ہی دئے جارہے ہیں اس لئے ایک کے بعد ایک ریاستوں میں مل رہی ہار کیلئے بھی اب انہیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں کانگریس پارٹی 24 چناؤ ہار چکی ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کیونکہ کانگریس کا لگاتار کمزور ہونا دیش کے مفاد میں نہیں لیکن سوال یہ ہے کانگریس اٹھے کیسے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!