نہ مسلم آئے نہ دلتوں نے پوری حمایت دی:بسپا کا وجود داؤں پر
پچھلے چناؤ میں دلت ،برہمن سوشل انجینئرنگ کا فارمولہ فیل ہونے کے بعد بہوجن سماج پارٹی کو اب دلت مسلم گٹھ جوڑ بھی کوئی گل نہیں کھلا سکا۔ ہاتھی کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں۔ نتیجوں سے صاف ہے کہ مسلمان تو پارٹی کے ساتھ آئے نہیں بلکہ دلت ووٹوں کی مضبوط دیوار بھی ڈھے گئی اور پچھڑوں نے بھی پارٹی سے کنارہ کرلیا ہے۔ پانچ برس پہلے جہاں بسپا کو 80 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی وہیں لوک سبھا چناؤمیں صفر کے بعد پارٹی اب اسمبلی چناؤ میں بھی اوندھے منہ گر کر 19 سیٹوں پر ہی سمٹ گئی ہے اور ڈھائی دہائی والی سابقہ پوزیشن میں پہنچ گئی ہے۔ ’سرووجن ہتائے ،سروو جن سکھائے ‘ کا نعرہ دے کر 10 برس پہلے یوپی میں اکثریت کی سرکار بنانے کے بعد سے بسپا کا گراف گرتا چلا گیا۔پارٹی نے دلت ، برہمن سوشل انجینئرنگ کو چھوڑ کر اس چناؤ میں دلت ۔ مسلم تجزیئے پر کارڈ کھیلا تھا اور 97 مسلمانوں کو ٹکٹ دئے تھے۔ چناؤ سے ٹھیک پہلے انہوں نے انصاری بندھوؤں کو ہاتھی پر سوار کرانے کے ساتھ ہی 3 اور ٹکٹ مسلمانوں کو دے دئے۔ ایک دہائی پہلے وہ چناؤ میں 61 مسلمانوں کو ٹکٹ دینے والی مایاوتی نے پچھلی مرتبہ85 پر مسلمان اتارے تھے جبکہ اس بار تو ریکارڈ ہی توڑ دیا اور 100 یعنی 25 فیصدی سیٹوں پر مسلم امیدواروں پر داؤ لگادیا۔ یہی نہیں بسپا چیف نے 84 ریزرو سیٹوں سے کہیں زیادہ 87 سیٹوں پر دلتوں کو ٹکٹ دے دیا۔د وسری طرف پچھلی بار کے مقابلے 74 میں سے برہمنوں کو ٹکٹ گھٹا کر 66 ہی کردئے۔بسپا کو اپنا وجود بچانے کیلئے اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو دو برس بعد2019ء میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں بسپا کو مشکلوں سے مقابلہ کرنا ہوگا لہٰذا بسپا کو2019ء کے پیش نظر خود کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی بدلنی ہوگی۔ قریب ڈھائی دہائی پہلے بسپا جس طرح سے اترپردیش کی سیاست کے پس منظر میں چھائی تھی اس کے بعد یہ لگا کہ بسپا بھی یوپی کی جنتا کیلئے ایک مضبوط متبادل ہے لہٰذا بسپا یوپی میں قریب ایک دہائی تک اقتدار میں اور قریب دو دہائی تک اپوزیشن کے مضبوط رول میں رہی۔ دلت کی بیٹی کہنے والی مایاوتی کو اس ہار کے بعد ان کے وقار کو بھی بھاری دھکا پہنچا ہے۔ اس بار صوبے کی جنتا نے ذات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر پولنگ کی۔ جس کا نتیجہ ہے کہ بھاجپا اور اس کی ساتھی پارٹیوں کو 325 سیٹیں حاصل ہوئیں جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ اور تاریخی جیت ہے۔ بسپا کو پھر سے واپسی کرنی ہوگی نہیں تو اسے وجود بچانے کے لئے مشکلوں کے دور سے گزرنا پڑے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں