بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے

جسٹس ماکنڈے کاٹجو اپنے متنازعہ بیانات کیلئے مشہور ہیں۔ دراصل عدالت میں رہتے ہوئے اور بعد میں پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین کے طور پر انہوں نے کسی کونہیں بخشا۔ بیباکی کے ساتھ اپنی رائے دی اور لفظوں کے استعمال میں کوئی کنجوسی ہیں کی۔ سیاستداں بھی تو ان سے بچ نہیں پائے لیکن سومیا قتل کانڈ میں سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلے پر سوال اٹھانے والے جسٹس کاٹجو اب کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کے ریمارکس پر انہیں طلب کیا تھا۔ جمعہ کو وہ سپریم کورٹ میں اپنا بیان درج کرانے پہنچے۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب سپریم کورٹ کا کوئی سابق جج اپنا موقف رکھنے عدالت عظمیٰ پہنچا۔ کاٹجو کورٹ روم میں پہنچے جہاں تین ججوں کی بنچ نے تھینک کہہ کران کا خیر مقدم کیا لیکن 10 منٹ کے اندر ہی صورتحال بگڑ گئی اور اتنی بے قابو ہوگئی کہ بنچ نے سکیورٹی بلا کر کاٹجو کو بے عزت کر کورٹ روم سے باہر نکلنے کی ہدایت دے دی۔ ناراض کاٹجو بولے میں ڈرتا نہیں ہوں، باہر نہیں جاؤں گا۔ حالانکہ جب سکیورٹی گارڈ کاٹجو کے پاس پہنچے تو ججوں نے انہیں واپس کردیا۔ سابق جج کاٹجو دوپہر 2 بجے جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ جسٹس گگوئی نے کاٹجو سے کہا کہ آپ کورٹ کی مدد کررہے ہیں شکریہ۔ اب آپ اپنے بلاگ کے تبصرے کے بارے میں موقف رکھیں۔ کاٹجو نے جواب دیتے ہوئے کہا یہ قتل کا معاملہ تھا، پھر انہوں نے کئی بڑے فیصلوں کی مثال پیش کی۔ اس پر جسٹس رنجن گگوئی نے انہیں ٹوکا۔ کہا کہ مسٹر کاٹجو اگر آپ اپنے بلاگ کے تبصرے کے مطابق ہی دلیلیں دیں تو صحیح ہوگا۔ اگر آپ اس سے ہٹتے ہیں توہم بھی اپنا دائرہ بڑھا کر آپ کے بلاگ کے دیگر تبصروں پر نوٹس لیتے ہوئے سماعت شروع کردیں گے۔ اس پر کاٹجو نے کئی اور دلیلیں دیں لیکن عدالت نے قتل کانڈ کی نظرثانی عرضی خارج کردی۔ جسٹس گگوئی نے کہا کہ اب کورٹ کاٹجو کے تبصرے کے بارے میں اٹارنی جنرل کا موقف جاننا چاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے تبصرے کو عدالتی فیصلے کی بے عزتی جیسا بتایا۔ اس پر کاٹجو نے یہ کہا کہ یہ میرا بلاگ ہے۔ قانون ہمیں کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے دینے کا حق دیتا ہے۔ تب جسٹس گگوئی نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کی باتوں سے متفق ہیں۔ مسٹر کاٹجو آپ بتائیں کہ آپ پر عدالت کی توہین کا معاملہ کیوں نہ چلایا جائے؟ تبھی اٹارنی جنرل نے کہا میرا نظریہ بدل گیا ہے، اب میرا کہنا ہے اسے جذبات میں بہہ کر کئے گئے تبصرہ ماننا جاسکتا ہے۔ اسے توہین نہ مانا جائے لیکن بنچ نے کاٹجو کے ساتھ توہین کا نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ کورٹ کا فیصلہ سن کر کاٹجو بھڑک گئے۔ بولے مسٹر گگوئی آپ میرے جونیئر ہیں ایسا برتاؤ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ میں عدالت کے بلانے پر یہاں آیا ہوں۔ آپ کا برتاؤ غلط ہے۔ اس کے بعد جسٹس گگوئی سماعت ملتوی کر وہاں سے چلے گئے۔ کاٹجو نے ایک ٹوئٹ میں لکھا۔ جیسے ہی سماعت آگے بڑھی مجھے سمجھ میں آگیا کہ یہ گگوئی کے ذریعے طے کیا گیا پہلے سے تیار کردہ ڈرامہ تھا۔ وہاں سومیا معاملہ کی سماعت کو لیکر سنجیدہ پہل نہیں تھی۔ بتادیں کہ 23 فروری 2011ء کو کیرل کے ایک شخص گوندایامی نے سومیا کو ٹرین سے نیچے پھینک دیا تھا پھر اس سے بدفعلی کی۔ علاج کے دوران سومیا کی موت ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے گوندایامی کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کے کچھ دن بعد کاٹجو نے بلاگ میں لکھا ملزم کو موت کی سزا ہونی چاہئے تھی۔ اس فیصلے پر کھلی عدالت میں جائزہ لیا جانا تھا ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!