500 اور 1000 روپے کی سرجیکل اسٹرائک

آج ساری دنیا اور دیش کے اندر وزیر اعظم کی اقتصادی سرجیکل اسٹرائک کو ان کا ماسٹر اسٹروک کہا جارہا ہے۔ اس بات کی تو داد دینی پڑے گی کہ وزیر اعظم نے اس سرجیکل اسٹرائک کے ٹائم کو اتنا راز میں رکھا کہ پبلک کوتو چھوڑیئے ان کے اپنے وزرا تک کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوسکی۔ کالی کمائی کے خلاف سخت قدم اٹھائے تو کرنسی نوٹ پر پابندی کا فیصلہ پوری طرح خفیہ تھا۔ مرکزی وزراتک کو اس کی جانکاری آخری وقت میں دے گئی لیکن عام جنتا کو ہدایت تو لمبی عرصے سے دی جارہی تھی۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے پانچ مہینے پہلے واضح وارننگ دی تھی کہ خود کالی کمائی اعلان نہیں کرنے والے بعدمیں شکایت نہ کریں اور نہ ہی پیروی اس کے بعد بھی دو تین موقعوں پر انہوں نے صاف اشارہ دیا تھا کہ وہ کالی کمائی کو لیکر بڑی کارروائی کرنے والے ہیں۔ آخری بار تو 15 روز پہلے انہوں نے کالی کمائی کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کی بات بھی کہی تھی۔ اس پورے معاملے میں ریزروبینک اور سرکار کی سطح پر 6 مہینے سے تیاری چل رہی تھی، لیکن اعلی سطح پر گنے چنے لوگوں کے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں لگی۔ مرکزی وزراء کو بھی پبلک اعلان سے آدھے گھنٹے پہلے ہی اس کی جانکاری ملی۔ بتاتے ہیں کہ مرکزی کیبنٹ کے ایجنڈے میں اس کی جانکاری نہیں تھی۔ ہاں وزرا ء کو ضرور بتایا گیا تھا کہ اپنے موبائل لیکر میٹنگ میں نہ آئیں اور بند کمرے میں وزیر اعظم نے یہ جانکاری دی کہ 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹ بند کئے جارہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وزراء نے دیش کے نام وزیر اعظم کا ایڈریس میں بھی وہی دیکھا۔ 500 اور 1000 کے نوٹ بند ہونے کے بعد پہلے دن سے ہی بینکوں ،اے ٹی ایم، دوکانداروں، بس اسٹیشن، ریلوے اسٹیشن پر ہی لوگوں کی جو لائنیں لگیں وہ اب تک جاری ہیں۔ لوگوں نے جہاں عام طور پر وزیر اعظم کے اس قدم کا خیر مقدم کیا وہیں اب بہت سے لوگ پریشانی کی وجہ سے گالیاں دینے پر اتر آئے ہیں۔ شروع شروع میں تو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار زیادہ پیسے والوں سے کم پیسے والے خوش نظر آئے۔ آزاد بھارت میں پہلی بار غریب ہنس رہا تھا اور امیر رو رہا تھا۔ایک9/11 میں امریکہ ہلا تھا دوسرے 9/11 بھارت ہل گیا۔ فیس بک ، ٹوئٹر پر جہاں دن بھر مودی فائٹ کرپشن ، سے 500 اور 1000 روپے ہٹیں گے، ہیش ٹیک سے وزیر اعظم سے متعلق ٹوئٹ پڑھے جاتے رہے۔وہیں واٹس اپ پر مانوں چٹکلوں کی برسات سی ہونے لگی ۔ لوگوں نے اسے کالے دھن کا سرجیکل اسٹرائک قراردیا لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے شاید حکومت نے اس سرجیکل اسٹرائک سے پہلے اپنا ہوم ورک ٹھیک سے نہیں کیا۔ نہ تو بینکوں میں درکار تعداد میں نوٹ تھے اور نہ ہی جلد عوام کو راحت ملنے کی امید ہے۔پچھلے کئی مہینوں سے بینک سے اگر عام مثال کے طور پر 5 ہزار روپے نکالنا گئے تو بینکوں نے 500 روپے کے نوٹ یا ہزار کے نوٹ تھما دئے۔ اگر 100 کے نوٹ چار پانچ مہینے پہلے سے جاری ہوجاتے تو آج اتنی دقت نہ ہوتی۔ آج بھی بینک میں گھنٹوں لائن میں کھڑے ہونے کے بعد2 ہزار روپے کے نوٹ دئے جارہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جس آدمی کو اپنے بچوں کے لئے دودھ لینا ہے یا راشن لینا ہے وہ 2 ہزار کے نوٹ کاکیا کرے گا؟ کھلے پیسے دو تو دودھ ملے گا۔ کچھ ایسا نظارہ زیادہ تر علاقوں میں بدھ ، جمعہ اور صبح نظر آیا۔ ڈیری کا دوھ بیچنے والوں نے گرہستنوں کے ہاتھ میں 500 یا 1000 کا نوٹ دیکھتے ہی دودھ کے پیکٹ واپس رکھ لئے۔ دودھ ،بریڈ، انڈے، بسکٹ وغیرہ صبح کی روز مرہ کی چیزوں کے لئے لوگ ایک دوسرے سے کھلے پیسے مانگتے نظر آئے۔ جن کے پاس کھلے پیسے نہیں تھے وہ بغیر سامان کے ہی لوٹ گئے۔ آئی پی ایکسٹینشن کے پاس دودھ بیچنے والی ایک خاتون مالتی نے بتایا کہ 20 کریٹ امول اور 20 کریٹ مدر ڈیری کے دودھ کے ساتھ وہ دھرنا اپارٹمنٹ کے پاس دوکان لگاتی ہے۔ صبح 7 بجے تک جو سامان لینے آئے انہیں پھٹکر پیسے دئے جائیں تاکہ اس کے بعد پیسہ نہ ہونے پر ہمیں بھی لوگوں کو سامان دینے سے منع کرنا پڑا یا ادھار دینا پڑا۔ ایک شخص کے گھر میں بیٹی کی شادی 27 نومبر کو طے ہوئی ہے۔ گھر میں شوہر کے علاوہ دو بیٹے ایک بہو ہیں۔ صبح دودھ نہ ملنے کے چلتے کنبہ چائے نہیں پی پایا۔ شادی کی تیاریوں کے چلتے گھر میں مہمانوں کا آنا جانا لگا ہوا ہے۔ شادی کا سارا انتظام کرنا ہے۔ اب جب انتظام کرنے والے پرانے 500 اور 1000 کے نوٹ نہیں لیں گے تو کیسے شادی ہوگی؟ 
حکومت کہتی ہے کہ آپ بینک میں جاکر پرانے نوٹ جمع کرا سکتے ہیں اور 4 ہزا روپے تک کے نوٹ بدل سکتے ہیں۔ لیکن بینکوں ، ڈاک خانوں میں آپ نے لمبی لائن دیکھی ہے؟ دو گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لائن میں لگنا پڑتا ہے اپنے نمبر کیلئے۔ جو مزدور روز روزی روٹی کماتا ہے وہ بھلا اگر لائن میں لگا رہے گا تو کھائے گا کیا؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ تقریباً ہر گرہستن اپنے گھر کے خرچے سے کچھ پیسہ ہنگامی حالات کے لئے بچاتی ہے جس کی اس کے شوہر کو جانکاری نہیں ہوتی۔ اب اس کرنسی اسٹرائک کے بعد نہ صرف اسے اس جمع پونجی کی جانکاری شوہر کو دینی ہوگی اور بدلوانے کی گھبراہٹ پیدا ہوگئی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو دقت الگ پیش آرہی ہے۔ لوگوں کو اپنوں کی لاشیں تک نہیں مل رہی ہیں کیونکہ زیادہ تر پرائیویٹ بینک پرانے 500 اور 1000 کے نوٹ لینے سے صاف انکار کررہے ہیں۔ لوگوں کو زندگی بخش دوائیوں تک میں دقت آرہی ہے کیونکہ کیمسٹ (سرکار کے حکم کے باوجود ) پرانے نوٹ لینے سے انکار کررہے ہیں۔ جو لے بھی رہے ہیں وہ کھلے پیسے نہیں دے رہے۔ کسی کو 10-20 روپے کی دوا لینی ہو تو وہ کیا کرے؟ اور تو اور ایک شخص تو اپنی ماں کے کفن کے لئے بھٹکتا رہا۔ حالانکہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 14 نومبر تک سرکاری ہسپتالوں ، ریلوے ٹکٹ کاؤنٹروں اور قبرستان، شمشان گھاٹوں وغیرہ پر500اور 1000 روپے کے نوٹوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔باوجود اس کے مدھیہ پورہ کا باشندہ انعام الحق کفن کے لئے 500 روپے کا نوٹ لیکر بھٹکتا رہا۔ بدھ کی صبح کو انعام الحق کی ماں (60 سال ) کی موت ہوگئی تھی لیکن کوئی بھی دوکاندار اس کو کفن دینے کو تیار نہیں ہوا۔ انعام الحق کے پاس صرف 500 اور 1000 روپے کے ہی نوٹ تھے۔ اس معاملے کی جانکاری وارڈ کونسلر کو دی ان کی مدد کے بعد ہی انعام الحق کی ماں کو کفن ملا ۔ (جاری)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟