بس بہت ہوچکا اب اور نہیں

بس اب اور برداش نہیں۔ بھارت نے پاکستان کے ذریعے چھیڑی گئی اس غیر اعلانانیہ جنگ میں بہت قربانی دے دی۔ ہم نے اپنے بہادر جوانوں کی بہت شہادت دیکھی ہے اب اور زیادہ نہیں دیکھ سکتے، ہمیں اب تو اس کا جواب دینا ہی ہوگا۔ ہمیں پاکستان کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم نے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہنیں اور ہم اپنے دیش کی سکیورٹی اچھی طرح کرسکتے ہیں۔ ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ہر بار یہی ہوتا ہے کہ ان کی سرزمیں سے فدائی حملے ہوتے ہیں ،ہمارے جوان مارے جاتے ہیں اور ہم کوری دھمکیاں دیتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جی کہہ دیتے ہیں پاکستان کو اس کا معقول جواب دیا جائے گااورپھر ٹائیں ٹائیں فش ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہم پاکستان کو اسی کی زبان میں جواب کیوں نہیں دیتے؟ کیا ہم پاکستان سے ڈرتے ہیں؟ یا پھر ہمیں بین الاقوامی ساکھ کی اتنی فکر ہے کہ ہم جوابی کارروائی نہیں کرتے؟ مودی جی آپ اندرا جی سے سبق لیں۔بنگلہ دیش جنگ سے پہلے اندرا نے بہت کوشش کی تھی کہ امریکہ، چین، برطانیہ وغیرہ دیش ہماری پوزیشن سمجھیں اور ہمارا ساتھ دیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے بغیر انتظار کئے مشرقی پاکستان پر حملہ کر پاکستان کے دو ٹکڑے کردئے۔ بھارت کو ان غیر ملکی بڑی طاقتوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ امریکہ دوہرا کھیل کھیلتا ہے۔ ہمیں کہتا ہے کہ آتنک واد کے خلاف وہ ہماری حمایت کرے گا اور پاکستان کو اربوں ڈالر کے ہتھیار دیتا ہے جو بھارت کے خلاف استعمال کرے۔ چین جو آج پاکستان کا سب سے بڑا حمایتی بنا ہوا ہے اسے اپنا کاروباری مفاد مجبور کررہا ہے کہ وہ گوادر تک بنا رہے بندرگاہ کو بچانے کے لئے پاکستان کی ساری کرتوت کو نظرانداز کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر بھارت سرکار پاک کی نیوکلیائی حملہ کی دھمکی سے ڈرتا ہے تو اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اتنا آسان نہیں ہے نیوکلیائی بم کا استعمال کرنا۔ ویسے بھی نیوکلیائی بم ہتھیاروں کا استعمال سیدھے ہی نہیں ہوجاتا۔ کئی مرحلوں کی جنگ کے بعد نیوکلیائی ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت آتی ہے۔ ایک منٹ کے لئے مان بھی لیا جائے کہ پاکستان اپنے نیوکلیائی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے تو اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ رقبے میں بھارت سے اتنا چھوٹا ہے کہ آدھا علاقہ ہی مٹ سکتا ہے۔ نقشے سے پوری طرح غائب ہوسکتا ہے۔ نیوکلیائی ہتھیار استعمال کرنے تک کی نوبت نہیں آئے گی۔ پاک مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ اگر بھارت کے کسی کونے سے آتنکی حملہ کرتے ہیں تو کیا ہمیں اپنی ہی زمین پر جوابی کارروائی کرنے کے لئے امریکہ سے اجازت لینی پڑے گی؟ خود تو امریکہ اوبامہ بن لادن کو مارنے کیلئے ایبٹ آباد میں داخل ہوجاتا ہے وہ ہمیں اپنی ہی سرزمین پر دہشت گردوں کو روکنے و تباہ کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟ دیش کی عوام نے نریندر مودی کو اپنی پوری حمایت، مینڈیٹ دیا ہے مودی کو کسی بھی جوابی کارروائی کرنے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لینے کی ضرورت نہیں انہیں خود قدم اٹھانے ہوں گے اپوزیشن ساتھ آئے یا نہ آئے۔ ویسے اپوزیشن بھی یہی چاہتی ہے کہ ہمارے بہادر جوانوں کی شہادت بند ہو ،سوتے ہوئے جوانوں کو اس طرح سے جلا کر مارنا یہ کونسی آزادی کی لڑائی ہے؟ ہماری فوج کو بھی دیش کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم اپنی سکیورٹی کرنے میں اہل ہیں اور دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دے سکتے ہیں اور جوابی کارروائی چوری چھپے سے نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں ساری دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم اپنے دیش کی ایکتا اور سرداری بچانے میں اہل ہیں اور ایسا کرکے نہ تو ہم کوئی گناہ کررہے ہیں نہ ہی ہم جنگ لڑ رہے ہیں۔جنگ تو پاکستان نے شروع کررکھی ہے ہم تو بس جواب دے رہے ہیں لیکن جواب دے دیں تو؟ دیش جواب کا انتظار کررہا ہے۔ باتوں ،تقریروں ، کوری دھمکیاں بہت ہوچکی ہیں اب تو کچھ ٹھوس کرکے دکھانے کا وقت ہے اور دشمن کو یہ احساس دلانے کی سخت ضرورت ہے کہ بس اب اور نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟