اڑی سیکٹر ہی دہشت گردوں کے نشانے پر کیوں
سنیچر کو صبح سویرے ساڑھے پانچ بجے سرحد پارسے گھسے چار دہشت گردوں کا اڑی میں فوج کے بارہویں یونٹ کے بیس پر فدائی حملہ کوئی عام حملہ نہیں تھا۔ یہ بھارت کے کسی بھی فوجی اڈے پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ ا س میں ہم نے18 جوان کھو دئے اور کئی زندگی اور موت کے درمیان لڑ رہے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ حملہ الرٹ کے باوجود ہوا۔ مرکزی وزارت داخلہ کے پچھلے ہفتے جاری الرٹ میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ دہشت گرد ہوائی اڈوں، فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ بڑی تعدادمیں دہشت گرد گھسنے کی تیاری کی بھی اطلاع تھی اس کے باوجود دہشت گرد بیس کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔ وادی میں دو ماہ سے جاری تشدد آمیز مظاہروں پر ہی سب کی توجہ لگی ہے۔ اس سے دہشت گرد اور دراندازی انسداد گرٹ متاثر ہوئی ہے۔ دو ماہ سے دہشت گردی انسداد مہم قریب رکی ہوئی تھی یہ بھی ایک وجہ رہی اڑی کا یہ بیس کوئی عام فوجی بیس نہیں تھا۔ 12 ویں برگیڈ کا یہ ہیڈ کوارٹر اہم ہے۔ ایل او سی سے لگے اس بیس میں ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے۔اڑی ملٹری بیس ہندوستانی فوج کے برگیڈ کا بڑا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں ہر وقت قریب13 ہزار فوجی رہتے ہیں۔ یہ وادی میں سرحد پار سے ہونے والی دراندازی کو روکنے میں مدد گار اہم چوکیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے تین طرف کنٹرول لائن ہے جس کی وجہ سے اس پر حملہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اڑی کا ملٹری بیس یکساں زمین پر بنا ہوا ہے اور ایک طرف سے یہ کنٹرول لائن سے صرف 6 کلو میٹر دوری پر ہے۔ وہیں ایل او سی کے اس طرف پاکستانی فوج کی چوکی اونچے پہاڑوں پر بنی ہے جس کے سبب پاک فوج اونچائی سے مسلسل اس بیس پر نظر رکھتی ہے۔ ایل او سی پر اس سال جون تک دراندازی کے 90 واقعات ہوچکے ہیں جبکہ2015ء میں 29 واقعات ہوئے تھے۔ پچھلے ایک ماہ میں ہی فوج اور دہشت گردوں کے درمیان چار مڈبھیڑیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان نے 260 بار سے زیادہ جنگ بندی توڑی۔2016ء میں ہی کئی حملے ہوئے۔ 11 ستمبر کو پونچھ حملہ میں تین دنوں تک مڈ بھیڑ چلی اس میں 6 جوان شہید ہوگئے۔ ایک شہری بھی مارا گیا۔ چار دہشت گرد بھی مارے گئے۔ اس سے ایک دن پہلے بارہمولہ میں حملہ ہوا۔ تین مقامات پر دراندازی کی کوشش کی گئی جس میں جوانوں نے چار دہشت گردوں کو مار گرایا۔ 17 اگست کو سرینگر۔ بارہمولہ ہائیوے کے پاس فوج کے قافلے پر حملہ ہوا جس میں 8 لوگ مارے گئے اور 22 زخمی ہوئے۔ 15 اگست کو سرینگر حملہ میں ایک سی آر پی ایف کمانڈینڈ شہید ہوئے تھے۔ 25 جون کو پامپور میں سی آرپی ایف پر حملہ میں 8 جوان شہید ہوئے20 زخمی۔3-4 جون کو اننت ناگ میں بی ایس ایف کے 3 جوان اور جموں و کشمیر پولیس کے 2 جوان شہید ہوئے۔ جنوری میں پٹھانکوٹ حملہ ہوا جس میں6 جوان 1 سکیورٹی جوان 1 شہری کی موت ہوئی تھی۔ حملہ آوروں نے پٹھانکوٹ کی طرح اڑی حملے کو انجام دیا۔ چاروں دہشت گرد پوری تیاری و انٹیلی جنس کے ساتھ آئے تھے۔ پٹھانکوٹ میں بھی پاکستان سے آئے جیش محمد کے دہشت گردوں نے صبح کے وقت جوانوں کی ڈیوٹی کی ادلا بدلی کے وقت کا فائدہ اٹھایا تھا۔ اڑی میں بھی ایسا ہی وقت چننے کی بات سامنے آئی۔ پٹھانکوٹ کی طرح ہی اس بار بھی آتنک وادی کافی ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ اڑی حملے کے وقت سبھی آتنکی فوج کی وردی میں تھے۔ اس سے پہلے دہشت گردوں نے جتنے بھی بڑے حملے کئے ان میں آتنکی فوج کی وردی میں تھے جیسے پارلیمنٹ کا حملہ۔ یہ اتفاق ہے کہ اب تک ہوئے سب سے بڑے آتنکی حملے این ڈی اے کے عہد میں ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ پر حملہ اور اڑی میں تازہ حملہ۔ اڑی میں بھارتیہ فوج کے حملے پر اڈہ محض ایک اتفاق ہے یا پاک فوج یا آئی ایس آئی کا بھارت سرکار کو پیغام دینے کا طریقہ ہے؟ اس کا پتہ تو شاید ہی چل پائے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے پہلے سے بگڑ چکے رشتے کو یہ حملہ اور خراب کردے گا۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے سالگرہ کے ٹھیک ایک دن بعد ہوئے اس حملے کو کئی واقف کار پاک خفیہ ایجنسی ، فوج و پی ایم نواز شریف کے درمیان جاری ٹکراؤ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ دراصل پی ایم مودی نے ٹھیک 9 مہینے پہلے 25 دسمبر2015 ء کو نواز شریف کے جنم دن پر اچانک لاہور میں ان کے گھر پہنچ کر بھارت ۔ پاک رشتے کی بہتری کی امید جتائی تھی جبکہ سنیچر (17 ستمبر 2016ء) کو مودی کے جنم دن پر نواز شریف نے نہ تو مودی کو ٹیلی فون کیا اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجا۔ اس طرح سے مودی نے پی ایم کا حلف لینے کے ساتھ ہی انہوں نے شخصی طور پر رشتے بہتر بنانے کی جو کوشش کی تھی اس کا بھی اب ڈراپ سین مانا جارہا ہے۔ پاکستان نے اس بار بھی اپنی عادت کے مطابق ہندوستان کے الزامات کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ ساتھ ہی کارروائی کے لائق خفیہ جانکاری مانگی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوا نے کہا کہ دونوں دیش کے ڈی ڈی ایم او نے ہاٹ لائن پر تبادلہ خیال کیا۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق باجوا نے دوہرایا دراندازی نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں طرف سخت انتظام ہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے سالگرہ کے ٹھیک ایک دن بعد ہوئے اس حملے کو کئی واقف کار پاک خفیہ ایجنسی ، فوج و پی ایم نواز شریف کے درمیان جاری ٹکراؤ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ دراصل پی ایم مودی نے ٹھیک 9 مہینے پہلے 25 دسمبر2015 ء کو نواز شریف کے جنم دن پر اچانک لاہور میں ان کے گھر پہنچ کر بھارت ۔ پاک رشتے کی بہتری کی امید جتائی تھی جبکہ سنیچر (17 ستمبر 2016ء) کو مودی کے جنم دن پر نواز شریف نے نہ تو مودی کو ٹیلی فون کیا اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجا۔ اس طرح سے مودی نے پی ایم کا حلف لینے کے ساتھ ہی انہوں نے شخصی طور پر رشتے بہتر بنانے کی جو کوشش کی تھی اس کا بھی اب ڈراپ سین مانا جارہا ہے۔ پاکستان نے اس بار بھی اپنی عادت کے مطابق ہندوستان کے الزامات کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ ساتھ ہی کارروائی کے لائق خفیہ جانکاری مانگی ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوا نے کہا کہ دونوں دیش کے ڈی ڈی ایم او نے ہاٹ لائن پر تبادلہ خیال کیا۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق باجوا نے دوہرایا دراندازی نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں طرف سخت انتظام ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں