اسلامی کٹر پسندوں کی زد میں بنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں ہندو شہریوں سمیت اقلیتوں پر حملہ مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ راجدھانی ڈھاکہ میں گلشن ڈپلومیٹک زون میں واقع ہولی آرٹیشن بیکری ریستوراں میں 8سے10 مسلح حملہ آوروں نے حملہ کردیا اور 20 سے زائد غیر ملکیوں و کئی سفارتکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ ڈھاکہ کے جس ڈپلومیٹک علاقے میں یہ حملہ ہوا وہ کافی محفوظ مانا جاتا ہے۔ اس گلشن۔2 علاقہ میں 34 ملکوں کے سفارتخانے قائم ہیں۔ چشم دید گواہوں کے مطابق قریب پونے نو بجے کئی ہتھیار لئے لوگ ’اللہ اکبر‘ بولتے ہوئے گھسے اور کئی بیٹھے گراہکوں و ملازمین کو یرغمال بنا لیا۔ اس حملہ کے دوران جان بچا کر بھاگے ہولی آرٹیشن بیکری کے ملازم سمون راجہ نے میڈیا کو بتایا کہ جب حملہ ہواتھا تو ریستوراں میں زیادہ تر لوگ اٹلی اور ارجنٹینا کے شہری موجود تھے۔ ریستوراں پر قبضے کے بعد حملہ آوروں نے اندھا دھند گولہ باری شروع کردی۔ اس دوران ٹی وی چینلوں نے واقعہ کا سیدھا ٹیلی کاسٹ شروع کردیا لیکن بعد میں افسروں کی درخواست پر اسے روک دیا گیا۔ حملے میں ایک غیر ملکی کے مارے جانے کی خبر ہے اور کم سے کم60 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گرد تنظیم آئی ایس نے اس حملہ کی ذمہ داری لی ہے۔ آتنکی تنظیم کی نیوز ایجنسی ’اماف‘ نے حملہ میں 20 لوگوں کے مارے جانے کا دعوی کیا ہے۔ یہ حملہ تقریباً اسی انداز سے کیا گیا جیسے 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں کئی جگہ لشکر نے کیا تھا۔ دہشت گردوں نے اسی طرح کئی لوگوں کو یرغمال بنایا تھا حالانکہ ان حملوں میں 166 لوگ مارے گئے تھے ۔ ادھر جمعہ کو صبح3 بجے مشتبہ حملہ آوروں نے 50 سالہ ہندو پجاری شیاما نند داس کو چاقو مار کر ہلاک کردیا۔ اس سال اب تک 5 پجاریوں کی جان جاچکی ہے جن میں سے دو حملے تو پچھلے مہینے میں ہوئے ۔ جمعہ کی صبح قریب6 بجے شیامانند پوجا کے لئے پھول اکھٹے کررہے تھے اسی وقت موٹر سائیکل پر آئے 3 لوگوں نے ان کی گردن پر دھار دار ہتھیارسے حملہ کردیا۔ بنگلہ دیش میں مسلسل ہندوؤں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ 1941 ء میں یہاں 28 فیصد ہندو آبادی تھی جو گھٹ کر 2011ء میں محض 8.5 فیصد رہ گئی۔ 2001ء میں یہ تعداد 9.2 فیصدی تھی حال ہی میں بڑھ رہے حملوں کے واقعات سے ہندو آبادی خوف کے سائے میں جینے کو مجبور ہے۔ ہندوستانی سرحد سے لگے بنگلہ دیش میں اسلامک آتنک واد کا بڑھنا بھارت کے لئے تشویش کا موضوع ہے۔ ہندوستانی سرحد کے ایک محاذ پر پاکستان اور چین سے پہلے ہی خطرہ ہے۔ ہندوؤں اور سیکولر رضاکاروں کا مسلسل قتل کے درمیان بنگلہ دیش نے بھارت کو باآور کیا ہے کہ وہ ہندوؤں کے اختیارات کی سلامتی کو لیکر پوری طرح عہد بند ہے۔ ساتھ ہی کہا زیادہ تر ایسے واقعات فرقہ وارانہ نہیں ہیں بلکہ بنگلہ دیش میں آئی ایس، آئی ایس آئی و دیگر اسلامی تنظیموں کے بڑھتا اثر پوری دنیا کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خاں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں کسی اسلامک اسٹیٹ یا القاعدہ کا وجود نہیں ہے۔ یرغمال بنانے والے آتنکوادی بنگلہ دیش کے ہی ہیں اور جماعت المجاہدین جیسی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے سیاسی مشیر حسین توفیق امام نے بتایا کہ جس طریقے سے یرغمالوں کو قتل کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ اس سے ممنوعہ تنظیم جماعت المجاہدین کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کی آئی ایس آئی اور جماعت کا رشتہ دنیا جانتی ہے۔ یہ بات ہمیں سمجھ میں نہیں آئی کہ جب دہشت گردوں کے پاس اسلحہ اور آٹومیٹک بندوق ہونے کے باوجود یرغمالوں کو دھار دار ہتھیار سے گلا کیوں کاٹاگیا؟سکیورٹی ایجنسیوں کاتو یہی خیال ہے کہ گلا کاٹنے کے آئی ایس کے خطرناک طریقے کا استعمال بھارت سمیت پورے برصغیر کے لئے ایک وارننگ ہے۔ غور طلب ہے کہ پچھلے کچھ مہینے سے ہندو پجاریوں اور دانشوروں کے قتل کے سبب ہندوستانی ایجنسی بنگلہ دیش کے حالات پر گہری نظر رکھ رہی ہیں۔ اعلی ترین خفیہ ذرائع کے مطابق بنگلہ دیش میں کچھ مہینوں سے تمیم چودھری نام کا کینڈا کا شہری تشدد آمیز سرگرمیوں میں سرگرم ہے ۔ اس بات کی تصدیق کی جارہی ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے بھی کہی تمیم چودھری کا ہاتھ تو نہیں ہے۔ اس حملہ کے ایک چشم دید گواہ رضوان الکریم نے بتایا کہ حملہ آوروں نے بنگلہ دیشی یرغمالوں کو ڈنر کرایا اور پھر سبھی یرغمالوں سے قرآن کی آیتیں سنانے کوکہا، جو نہیں سنا پائے ان کا گلا کاٹ دیاگیا۔انسٹی ٹیوٹ آف ورناٹیکل مینجمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اجے ساہنے نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں تقریباً سبھی بڑی دہشت گرد تنظیموں کو ختم کیا جاچکا ہے ان تنظیموں کے بچے لوگ آئی ایس اور القاعدہ کے نام پر واقعات کو انجام دے رہے ہیں تاکہ انہیں پہچان مل سکے۔ بنگلہ دیش میں غم کا ماحول ہے حکومت نے دو دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے ۔ ڈھاکہ میں ہوئے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اداکارہ عرفان خاں نے کہا کہ حادثہ ایک جگہ ہوتا ہے اور بدنام پوری دنیا کے مسلمان ہوتے ہیں۔ ایتوار کو انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا قرآن کی آیتیں نہ جاننے کی وجہ سے رمضان کے مہینے میں لوگوں کو قتل کردیا گیا۔حادثہ ایک جگہ ہوتا ہے اور بدنام اور اسلام پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے آگے لکھا وہ اسلام جس کی بنیاد ہی امن اور رحم اور دوسروں کا درد محسوس کرنے پر ہے، ایسے میں کیا مسلمان چپ بیٹھے رہیں اور مذہب کو بدنام ہونے دیں؟ یا وہ خود اسلام کے صحیح معنوں کو سمجھیں اور دوسروں کو بتائیں کے ظلم اور قتل عام کرنا اسلام نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟